قرآن و اہل بیتؑ کا باہمی تعلق(حدیث ثقلین کی روشنی میں)حصہ چہارم

فاضل جامعۃ الکوثر ثاقب علی ساقی
باب چہارم
اہل بیتؑ کون
اللہ تعالی کی فضل و کرم سے قرآن مجید سے متعلق اختصار کے ساتھ بحث مکمل ہوگئی اب چاہتے ہیں کہ اختصار کے ساتھ اہل بیتؑ سے متعلق بھی بحث ہوجائے۔جیسا کہ اوپر اس بارے میں بحث ہوچکی ہے کہ نظام ہدایت کی بنیاد دو اہم چیزوں پر ہے کہ جن میں سے ایک منشور ہدایت یعنی کتاب ہے اور دوسرا ہادی و رہنما ہے۔ رسول اللہؐ نے قیامت تک اپنے بعد جن چیزوں کو بطور ہادی متعارف فرمایا ان میں سے ایک اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب یعنی قرآن مجید اور دوسری چیز کہ جس کو بطور ہادی و رہنما متعارف فرمایا وہ اہل بیتؑ ہیں۔اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید بھی ہادی و رہنما ہے لیکن اس قرآن صامت کو سمجھنے کیلئے ہر زمانے میں ایک قرآن ناطق کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید ہم سے نطق نہیں کرسکتا کہ ہمیں یہ کہے کہ میری اس آیت سے مراد یہ نہیں بلکہ یہ ہے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بہت سارے لوگ اسی قرآن کی وجہ سے ہی گمراہ ہوچکے ہیں۔ وہ اس طرح کہ قرآن کے آیات کا وہ معنی کہ جو مقصود خداوندی ہے اس کو نہیں سمجھے بلکہ کوئی اور معنی اس آیت سے لے لیا اور اس طرح وہ گمراہ ہوگئے اور اس کی سب سے بہترین مثال خوارج ہیں۔
لھذا اہل بیتؑ ہی قرآن مجید کے حقیقی مفسر ہیں کہ جن کی طرف ہمارا رجوع کرنا لازم ا ور واجب ہے۔
رسول اللہؐ کی وفات کے بعد مسلمان مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے حالانکہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو فرقہ واریت سے سختی سے منع کیا تھا بلکہ نہ صرف یہ کہ رسول اللہؐ نے فرقہ واریت سے منع فرمایا ہے ساتھ قرآن مجید کا واضح اور دو ٹوک حکم بھی ہے کہ :
وَ اعتَصِمُوا بِحَبلِ لِلّٰہِ جَمِیعَا وَ لا تَفَرقُوا۔
(اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور تفرقہ مت کرو۔)
فرقہ واریت کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بہت سارے واضح موضوعات مجمل ہوگئے اور ہر کوئی مخصوص ترز تفکر لیکر اپنے فرقے کو تقویت دینے لگا اور اپنے فرقے کے نظریات کی تبلیغ و ترویج کرنے لگا خوا وہ نظریات قرآن کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔
اہل بیتؑ کون ہیں اگر ہم قرآن و احادیث رسول اللہؐ کی طرف مراجعہ کریں تو بات بالکل واضح ہے کسی قسم کا اجمال اہل بیتؑ کی شناخت میں نہیں ہے لیکن فرقہ واریت کی وجہ سے اور بالخصوص بغضِ اہل بیتؑ کی وجہ سے ایسے واضح موضوعات کو مجمل بنادیا گیا۔یہاں جو ہم یہ بحث کریں گے کہ اہل بیتؑ کون ہیں۔یہ بالعموم رسول اللہ کی خاندان سے متعلق نہیں کریں گے یعنی اہل بیتؑ کے لفظ کا لغوی و عرفی معنی مراد لیکر ہم یہ بحث نہیں کررہے بلکہ ہم یہاں جو اہل بیتؑ سے متعلق بحث کریں گے وہ اس لحاظ سے ہے کہ قرآن مجید میں جن ہستیوں کو اللہ تعالی نے عصمت و طہارت کے درجے پر قرار دیا ہے،قرآن مجید نے جن کی مودت کو لازمی قرار دیا ہے اور رسول اللہؐ نے جن ہستیوں کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے یہ کون ہستیاں ہیں۔باالفاظ دیگر قرآن نے رسول اللہؐ کے اہل بیتؑ کا جو ذکر کیا ہے اور ان کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور خود رسول اللہؐ نے بھی بہت سارے احادیث میں اپنے اہل بیتؑ کا ذکر کیا ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے ان سے مراد کون لوگ ہیں؟
اہل بیتؑ سے متعلق مختلف نظریات
اہل بیتؑ کون ہیں جیسا کہ ہم اس بحث کے آغاز میں کہہ چکے ہیں کہ قرآن و احادیث کی طرف اگر ہم مراجعہ کریں تو یہ بحث بالکل واضح ہے لیکن فرقہ واریت کی وجہ سے یہ بحث مجمل ہوگیا ہے۔ اہل بیتؑ کون ہیں اس حوالے سے جب تحقیق کرتے ہیں اور علماء اسلام و مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے نظریات کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے دس سے زیادہ نظریات آتے ہیں۔عین ممکن ہے اہل بیتؑ سے متعلق اس سے بھی زیادہ نظریات ہوں کہ جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ہیں،البتہ اختصار کے ساتھ ان نظریات کا ذکر کرتے ہیں اور ان میں سے جو اہم نظریات ہیں ان سے متعلق بحث کرتے ہیں۔
پہلا نظریہ
اہل بیت سے متعلق پہلا نظریہ یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد فقط رسول اللہ ؐکے ازواج ہیں۔اس نظریے کی بنیاد صحابی رسول عبد اللہ ابن عباس کی ایک روایت ہےکہ جو حضرت ابن عباس سے عکرمہ نے نقل کیا ہے اور خود عبد اللہ ابن عباس کے غلام عکرمہ کا قول بھی یہی ہے۔
عکرمہ صحابی رسول ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ الْمَوْصِلِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَاب، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} قَالَ: نَزَلَتْ فِي نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خاصة
(عکرمہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت تطھیر فقط ازواج النبیؐ سے متعلق نازل ہوئی ہے۔)
عکرمہ بازار میں اعلان کیا کرتا تھےکہ یہ آیت فقط ازواج النبیؐ سے متعلق نازل ہوئی ہے۔
اشکال
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عکرمہ ایک ناصبی ہے کتب رجال میں عکرمہ کی مذمت ہوئی ہے،مثلا کشی نے عکرمہ کا ذکر کیا ہے اور نواصب کا اہل بیتؑ سے بغض واضح ہے اور نہ اس قول کو خود اہل سنت کے جید علماء قبول کرتے ہیں بلکہ اسی تفسیر ابن کثیر میں عکرمہ کے اس قول اور ابن عباس سے عکرمہ نے جو روایت نقل کی ہے اس کے بعد خود ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
اگر عکرمہ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ ان آیات کا سبب نزول ازواج النبیؐ ہیں یعنی یہ آیات ازواج النبیؐ سے متعلق نازل ہوئی ہیں لھذا ازواج النبیؐ بھی اہل بیتؑ میں شامل ہیں اگر ایسا ہے تو پھر تو عکرمہ کا قول صحیح ہے لیکن اگر عکرمہ کا مطلب یہ ہے کہ فقط ازواج النبیؐ ہی اہل بیت النبیؐ ہیں تو یہ بات قابل اشکال ہے کیونکہ احادیث وارد ہیں کہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیتؑ ان کے علاوہ بھی ہیں فقط ازواج النبیؐ ہی اہل بیت ہوں ایسا نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہ جو حدیث ابن عباس سے نقل ہے اس کے مقابلے میں ابن عباس سے وہ حدیث بھی نقل ہے کہ جس میں یہ موجوو ہے کہ اہل بیت سے مراد پنجتن ہیں اور یہ حدیث شیعہ و اہل سنت کے ہاں متواتر ہے اور ابن عباس کے علاوہ 34 اصحاب النبیؐ سے نقل ہے۔لھذا یہ خبر واحد جو کہ عکرمہ سے نقل ہے اس حدیث متواتر کا مقابلہ نہیں کرسکتا کہ جو ابن عباس کے علاوہ خود ازواج النبیؐ اور دوسرے اصحاب النبیؐ سے نقل ہے۔یہی روایت عکرمہ کے علاوہ ایک اور سلسلہ سند سے بھی ابن عباس سے نقل ہے لیکن اس سند میں بعض مجہول ہیں اور بعض کا کتب رجال اور جرح و تعدیل میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے اور بعض راوی کذاب ہیں ابایحییٰ الحمانی و خصیف جیسے افراد نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔
دوسرا نظریہ
اہل بیت سے متعلق دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد رسول اللہؐ کے وہ رشتہ دار ہیں کہ جن پر صدقہ حرام ہے۔ اس نظریے کی بنیاد صحابی رسول اللہ زید ابن ارقم کا قول ہے۔
حضرت زید ابن ارقم سے روایت ہے :
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ، يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي وَاللّٰهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَمَا لَا، فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللّٰهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللّٰهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللّٰهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللّٰهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ
(زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے ابوحیان نے حدیث بیان کی، کہا: یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم (تینوں) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا: زید ! آپ کو خیر کثیر حاصل ہوئی، آپ نے رسول اللہ ؐ کی زیارت کی، ان کی بات سنی، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں۔ زید ! آپ کو خیر کثیر حاصل ہوئی ہے۔ زید ! ہمیں رسول اللہؐ سے سنی ہوئی (کوئی) حدیث سنایئے۔ (حضرت زید رضی اللہ عنہ نے) کہا: بھتیجے ! میری عمر زیادہ ہو گئی، زمانہ بیت گیا، رسول اللہ ؐ کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں، اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو۔ اور جو (بیان) نہ کر سکوں تو اس کا مجھے مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر کہا: رسول اللہ ؐ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ایک پانی کے کنارے جسے خم کہا جاتا تھا، ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: ’’ اس کے بعد، لوگو ! سن رکھو کہ میں ایک انسان ہوں، قریب ہے کہ اللہ کا قاصد (اس کا بلاوا لے کر) میرے پاس آئے گا اور میں لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو لے لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو !‘‘ آپ نے کتاب اللہ پر بہت زور دیا اور اس کی ترغیب دلائی، پھر فرمایا: ’’ اور میرے اہل بیت۔ میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں۔ ‘‘ حصین نے ان سے کہا: زید ! آپ ؐ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت نہیں؟ انھوں نے کہا: آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن آپ کے اہل بیت میں ہر وہ شخص شامل ہے جس پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ اس نے کہا: وہ کون ہیں؟ (حضرت زید رضی اللہ عنہ نے) کہا: وہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔ اس نے پوچھا: یہ سب صدقے سے محروم رکھے گئے ہیں؟ کہا: ہاں۔
اشکال
اس نظریے پر بنیادی اشکال یہ ہے کہ صدقہ کی حرمت کا اہل بیت میں سے ہونے کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے اور نہ اس قول کی تائید کسی آیت و روایت سے ہوتی ہے یعنی نہ تو اس معیار کا ذکر قرآن میں ہے اور نہ احادیث میں ہےبلکہ یہ حضرت زید ابن ارقم کا اہل بیت ؑ سے متعلق اپنا نکتہ نظر ہے اور اس نکتہ نظر کےتحت انہوں نے اہل بیتؑ کو تشخیص دی ہے کہ اہل بیت سے مراد یہ لوگ ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہےقرآن مجید نے اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت کی گواہی دی ہے اور رسول اللہؐ نے اہل بیتؑ کو قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے جبکہ تمام کے تمام آل علی،اور اسی طرح آل عقیل و آل جعفر و آل عباس کی عصمت ثابت نہیں ہے بلکہ ان کی اولاد میں سے بعض تو گناہان کبیرہ کا شکار ہوچکے ہیں اور ایک گناہ گار انسان کو کیسے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لھذا معلوم ہوتا ہے کہ زید ابن ارقم کی لفظ اہل بیتؑ کے بارے میں یہ تفسیر و تشریح قابل قبول نہیں ہے اور نہ قرآن و احادیث کے مطابق ہے۔پس جو معیار اہل بیتؑ کا خود قرآن نے بیان کیا ہے یعنی عصمت و طہارت اور جو معیار خود رسول اللہؐ نے بیان فرمایا ہے یعنی ہم پلہ قرآن ہونا یہ معیار اہل بیتؑ کی تشخیص کیلئے کافی اور ہر حوالے سے مناسب ہے۔ٹھیک ہے امت میں سے بعض افراد کے اوپر صدقہ حرام ہے جیسے حضرت زید ابن ارقم یا جو اس قول کو مانتے ہیں ان کے مطابق یہ لوگ ہیں اور بعض محققین کے نسبت اولاد علی ؑ و فاطمہ ؑ ہیں بعض مطلقا بنی ہاشم اس سے مراد لیتے ہیں یہ اپنی جگہ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اہل بیتؑ میں بھی شامل ہیں اور معصوم بھی ہیں بلکہ ان دو موضوعات کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہے کہ ان میں سے ایک کا دوسرے پر قیاس کریں اور پھر ایک نتیجہ نکالیں۔
تیسرا نظریہ
اہل بیتؑ سے متعلق تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اہل بیتؑ سے مراد خود رسول اللہؐ،علیؑ،فاطمہ،حسنینؑ و ازاج الرسول اللہؐ ہیں۔
اکثر اہل سنت کا نکتہ نظر یہی ہے۔جو علماء اس نظریے کے قائل ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت تطھیر ازواج النبیؐ کا اہل بیتؑ میں سے ہونے پر نص ہے کیونکہ ازواج النبیؐ ہی تو اس آیت کے نزول کا سبب ہیں۔اور سبب نزول جو قرار پائے ہیں وہ تو ویسے بھی داخل ہیں ہاں بحث یہ ہونی چاہئے کہ جو ان کے علاوہ ہیں وہ اہل بیتؑ میں داخل ہیں کہ نہیں ہیں یعنی ازواج النبیؐ تو ویسے بھی ہیں ان کے علاوہ کوئی ہے کہ نہیں اس بارے میں بحث ہونی چاہیے۔
دوسری دلیل اس نظریے کے قائلین یہ دیتے ہیں کہ سیاق آیت و سیاق جملہ اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ ازواج النبیؐ اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ خود اسی آیت تطھیر میں پہلے کے جملات اور اس آیت سے پہلے وہ بعد والی آیات ازواج النبیؐ سے متعلق ہیں۔
تیسری دلیل یہ اس نظریے کے قائلین کی یہ ہے کہ لفظ اہل بیت کا جو معنی و مفہوم ہے اس میں ازواج شامل ہیں اور چوتھی دلیل وہ روایات ہیں کہ جن میں اس بات کا ذکر ہے کہ ازواج النبیؐ بھی اہل بیت میں سے ہیں پس اگر بعض روایات میں اس بات کا ذکر نہیں ہے تو قرآن کی آیت اور ان احادیث کے درمیان جمع کرکے وہ اس نظریے کہ قائل ہوجاتے ہیں کہ پنجتن کے ساتھ ساتھ ازواج النبیؐ بھی اہل بیتؑ میں سے ہیں۔
یہ نظریہ بھی قابل اشکال ہے کیونکہ قرآن مجید نے اہل بیتؑ کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں اسی طرح رسول اللہؐ کے احادیث متواترہ میں اہل بیتؑ سے متعلق جو کچھ آیا ہے اس کے مطابق ہم اس نظریے کو اختیار نہیں کرسکتے۔وہ اس طرح کہ خود آیت تطھیر میں اللہ تعالی نے اہل بیتؑ کو عصمت و طہارت کا مالک ٹھہرایا ہے،رسول اللہؐ نے اپنے اہل بیتؑ کو قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور قیامت تک قرآن و اہل بیتؑ کے ساتھ رہنے کا کہا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ازواج النبیؐ میں سے حضرت عائشہ نےمولا علیؑ کے خلاف جنگ لڑی جو اس وقت تمام مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق خلیفۃ المسلمین تھے۔یعنی اگر ازواج النبیؐ اہل بیتؑ میں سے ہوں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خود اہل بیتؑ بھی ایک ساتھ نہیں ہیں جبکہ حدیث ثقلین میں واضح طور پر رسول اللہ بیان فرماتے ہیں کہ قرآن و اہل بیتؑ قیامت تک ساتھ ہوں گے جبکہ حضرت عائشہ مولاعلی ؑ کے خلاف جنگ لڑتی ہے اور امام حسنؑ کو قبر رسول اللہؐ کے ساتھ دفن ہونے نہیں دیتی جبکہ علیؑ کا اہل بیتؑ میں سے ہونا متفق علیہ ہے۔اور جہاں تک ازواج النبیؐ کے عصمت و طہارت کی بات ہے اگر ازواج النبیؐ عصمت و طہارت کے درجے پر فائز ہوں تو پھر اس آیت کو تب نازل ہونا چاہئے تھا جب حضرت عائشہ پر بعض منافقین نے تہمت لگائی۔اگر چہ وہ ایک تہمت تھی اللہ تعالی نے بذریعہ وحی ان کے اس منصوبے کو ناکام بنایا اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اللہ تعالی کی طرف سے اس وقت یہ وحی نہیں آئی کہ ازواج النبیؐ معصوم ہیں اور نہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ میری بیویاں معصوم ہیں اگر رسول اللہ کی بیویاں عصمت کے درجے پر ہوتیں تو اس وقت کسی اور آیت کے بجائے یہی آیت تطھیر نازل ہوتی تو بہتر تھا جبکہ ایسا نہیں ہے۔اور ساتھ یہ کہ یہ جو آیات ایک ہی جگہ پر ازواج النبی سے متعلق نازل ہوئی ہیں ان آیات میں تو بہت سخت انداز سے ازواج النبیؐ کو نصیحت کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف اہل بیتؑ کی طہارت کا بیان ہے یعنی اگر ازواج النبیؐ معصوم ہیں تو پھر ان کو اتنی سخت انداز سے نصیحت کیوں کی جارہی ہے؟
جو علماء کرام اس نظریے کے قائل ہیں اور اپنے نظریے پر کافی سارے دلائل لیکر آئے ہیں اب ان علماء کے دلائل کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ان علماء کے ان دلائل سے ازواج النبیؐ کا اہل بیتؑ میں داخل ہونا ثابت ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا۔
پہلی دلیل کی رد
سب سے پہلی دلیل جو یہ علماء دیتے ہیں وہ ان آیات کا سبب نزول ہے کہ چونکہ یہ آیات ازواج النبیؐ کی وجہ سے ہی نازل ہوئی ہیں لھذا ازواج النبیؐ تو اہل بیتؑ میں سے ضرور با ضرور شامل ہیں۔اگر ہم ا ن آیات کے سبب نزول کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہم ان آیات کے سبب نزول کو اس نظریے پر دلیل کے طور پر پیش نہیں کرسکتے۔اہل سنت کے عالم دین ابن حیان الاندلسی اپنی تفسیر تفسیر بحر المحیط میں اس آیت کے سبب نزول سے متعلق لکھتےہیں :
سبب نزولها أن أزواجه / صلى اللّٰه عليه وسلم)، تغايرن وأردن زيادة في كسوة ونفقة، فنزلت. ولما نصر اللّٰه نبيه وفرق عنه الأحزاب وفتح عليه قريظة والنضير، ظن أزواجه أنه اختص بنفائس اليهود وذخائرهم، فقعدن حوله وقلن: يا رسول اللّٰه، بنات كسرى وقيصر في الحلى والحلل والإماء والخول، ونحن على ما تراه من الفاقة والضيق. وآلمن قلبه بمطالبتهن له بتوسعة الحال، وأن يعاملهن بما يعامل به الملوك والأكابر أزواجهم
(جب بنی نضیر کی املاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں آ گئیں، بنی قریظہ کی املاک مہاجرین کے درمیان تقسیم ہونے پر ازواج رسولؐ کی توقعات زیادہ ہوگئیں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے مطالبات بھی بڑھ گئے اورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا شروع کیا۔ ازواج کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ یہودیوں کے عمدہ اموال خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے رکھے ہیں اس وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد بیٹھ گئیں اور کہا:کسریٰ و قیصر کی بیٹیاں زیب و زینت، حشم و خدام میں ہیں اور ہم فاقے سے ہوتی ہیں۔ ہمیں بھی وہی سہولتیں فراہم کی جائیں جو شہنشاہوں کی بیویوں کوحاصل ہیں۔)
اب اس سبب نزول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اہل بیتؑ میں ازواج النبیؐ بھی شامل ہیں حالانکہ ازواج النبیؐ کے اس عمل سے اللہ تعالی بہت ناراض ہوئے اور بہت ہی سخت انداز میں ازواج النبیؐ کو نصیحت کرنے لگے۔اسی آیت کے اندر اور اس آیت سے پہلے و بعد والے جن آیات میں ازواج النبیؐ کو اللہ تعالی نصیحتیں کرتا رہا ہے زرا وہ ملاحضہ فرمائیں۔
(اے نبی اپنی ازواج سے کہدیجئے:اگر دنیا اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طریقے سے رخصت کردوں۔اے نبی کی بیویو:تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہوجائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔اے نبی کی بیویو:تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقوی رکھتی ہو تو نرم لہجے میں باتیں نہ کرنا کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے۔اپنے گھروں میں ٹھریں اور دور جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو۔)
ایک طرف ازواج النبیؐ کی اس عمل کے رد عمل میں انتی سخت نصیحتیں اور دوسری طرف اللہ تعالی ان کی عصمت و طہارت کو بیان کرے یہ آپس میں جمع ہونے والی باتیں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالی نے ان آیات کے اندر ہی اہل بیتؑ کی شان بیان کرکے درحقیقت ازواج النبیؐ کا مقام بھی بتادیا اور اہل بیتؑ کا مقام بھی بتادیا۔ساتھ یہ کہ اگر ازواج النبیؐ اہل بیتؑ میں سے ہوتیں تو شیعہ و اہل سنت کے معروف و مشہور محدثین نے فضائل اہل بیتؑ کے عنوان سے اپنی کتابوں میں ایک باب کا ذکر کیا ہے جبکہ کسی نے بھی اس میں ازواج کا ذکر نہیں کیا بلکہ جنہوں نے ازواج النبیؐ کے فضائل بیان کرنے تھے انہوں نے فضائل ازواج النبیؐ یا امہات المومنین کے نام سے ایک الگ باب میں ان کا ذکر کیا ہے جبکہ وہ اس آیت کے سبب نزول و سیاق سے آگاہ تھے۔پس اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ و اہل سنت کے جید محدث علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ازواج النبیؐ اہل بیتؑ میں سے نہیں ہیں۔
دوسری دلیل کی رد
جہاں تک دوسری دلیل یعنی سیاق آیت و جملے کی بات ہے یہ بھی کوئی قابل قبول دلیل نہیں ہے چونکہ علماء کرام سیاق آیت و جملے کی طرف تب رجوع کرتے ہیں جب کسی آیت یا جملے کی تفسیر سے متعلق ہمارے پاس کوئی نص موجود نہ ہو جبکہ اہل بیتؑ سے مراد کون ہیں شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں تواتر کے ساتھ اس حوالے سے احادیث موجود ہیں لھذا اس صورت میں ہم کیوں سیاق آیت یا سیاق جملہ کی طرف رجوع کریں ساتھ یہ کہ یہ بات ہمارے لیےواضح ہے کہ ضروری نہیں کہ قرآن مجید کی ہر ایک آیت کا ایک ہی موضوع ہو اور اسی سے متعلق اس میں بیان موجود ہو ایساکوئی قاعدہ نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس آیت کے علاوہ بھی بعض مقامات پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی آیت میں آغاز میں ایک موضوع سے متعلق گفتگو ہے جبکہ آخر میں کسی اور موضوع سے متعلق گفتگو ہے حتی کہ ایسا بھی ہےکہ آغاز میں ایک ہی آیت میں ایک موضوع سے متعلق گفتگو ہے درمیان میں کسی اور موضوع سے متعلق گفتگو ہے اور آخر میں دوبارہ اسی پہلے والے موضوع سے متعلق گفتگو ہے جیسے سورہ مائدہ آیت نمبر 3 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
(تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروں کے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ تعالی یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔)
پس ایسے مواقع پر ہم کیسے سیاق آیت یا سیا ق جملہ سے استفادہ کرسکتے ہیں حالانکہ آیت تطھیر میں آغاز ازواج النبیؐ سے متعلق ہے اختتام اہل بیتؑ سے متعلق ہے اور اس کے بعد والی آیت پھر دوبارہ ازواج سے متعلق ہے لھذا یہاں تو بدرجہ اولی سیاق آیت و جملہ سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا جب اہل بیتؑ کے تعیین پر ہمارے پاس روایات متواترہ موجود ہیں۔
تیسری دلیل کی رد
تیسری دلیل اس نظریے کے قائل علماء کی یہ ہے کہ لفظ اہل بیت کے معنی و مفہوم میں ازواج النبیؐ شامل ہیں چونکہ لفظ اہل خود قرآن مجید میں بھی زوجہ،اولاد،قریبی رشتہ دار،خاندان اور ہم عقیدہ و ہم مذھب لوگوں کیلئے استعمال ہوا ہے اور جب اہل بیت کہتے ہیں تو یہاں بیت کو قرینہ بنا کر یہ معنی مراد لینا کہ گھر والے بالکل درست ہے حتی کہ گھر کے نوکر بھی اس معنی میں آجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم اہل بیت کے لفظ کا عمومی معنی و مفہوم مراد لیں کہ جو اس لفظ کا لغت میں ہے یا عرب اس لفظ کو جس معنی میں استعمال کرتے ہیں اگر اس عمومی معنی میں اس لفظ کو لیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر ازواج النبیؐ بھی شامل ہیں۔ لغت کے اعتبار سے اہل بیت کے معنی و مفہوم میں ازواج النبیؐ شامل ہیں لیکن آیا اس آیت میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں ہی استعمال ہوا ہے یا نہ بلکہ خود اسی آیت کے اندر یا اس آیت کے علاوہ قرآن مجید کے دوسرے آیات میں یا احادیث رسول اللہؐ میں کوئی تخصیص آئی ہے کہ نہیں آئی کہ جس نے اس لفظ کے لغوی مفہوم کو مقید کیا ہو۔جب ہم خود اس آیت کو دیکھتے ہیں تو اس آیت میں اللہ تعالی اہل بیتؑ سے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ چاہتا ہے کہ رجس کو اہل بیتؑ سے دور کریں اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔یعنی خود اسی آیت کے اندر ہمیں قید ملتا ہے کہ یہاں رسول اللہؐ کے سب کے سب قریبی رشتہ دار یا سب کے سب وہ لوگ کہ جن پر رسول اللہؐ کے اہل بیت کا لغوی و عرفی معنی صدق آتا ہے وہ مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد رسول اللہؐ کے رشتہ داروں میں سے وہ ہستیاں ہیں کہ جو عصمت و طہارت کے مقام پر فائز ہیں۔اس کے علاوہ رسول اللہؐ کی احادیث میں تواتر کے ساتھ اہل بیتؑ کے نام تک آئے ہیں ان شاء اللہ بعد میں تفصیل کے ساتھ ان احادیث کو بیان کریں گے۔لھذا یہاں ہم رسول اللہؐ سے مروی احادیث میں جو اس آیت کی تفسیر آئی ہے اسی کو ترجیح دیں گے فقط لغوی و عرفی معنی کو لیکر ان متواتر احادیث کو ترک نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان احادیث کا اس لغوی معنی کے ساتھ ہم جمع کرسکتے ہیں کیونکہ تضاد لازم آتا ہے۔ایک مثال دیتا چلوں مثلا قرآن مجید میں آیت مباہلہ کو دیکھیں (ابناء نا و انباء کم و نساءنا و نساء کم و انفسنا و انفسکم) اس آیت کے اندر نساءنا،ابناءنا اور انفسنا کے الفاظ آئے ہیں اب نساء کا لفظ یا اسی طرح اس کے بعد کے جو دو الفاظ ہیں لغوی و عرفی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو عام ہیں لیکن رسول اللہؐ اپنے ازواج تک لیکر نہیں گئے بلکہ رسول اللہؐ پر نعوذ باللہ بظاہر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اللہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کو لیکر جائیں رسول اللہؐ فقط فاطمہ کو لیکر گئے،اسی طرح بچوں اور بڑوں میں سے بھی جمع کی تعداد پوراہی نہیں کی حالانکہ اس وقت سینکڑوں مسلمان عورتیں،خود ازواج النبی،بچے اور افراد مدینہ میں موجود تھے لیکن پھر بھی رسول اللہؐ فقط اپنے ساتھ چار افراد کو لیکر چلے اب کوئی اگر کہے کہ اس آیت کا لغت و عرف کی بنا پر اور عربی قواعد کی بنا پر تو یہ مطلب بنتا ہے جبکہ رسول اللہؐ نے تو ایسا نہیں کیا بلکہ اس آیت کے مطابق عمل ہی نہیں کیا۔اسی طرح نساء کا لفظ بیوی کے معنی میں آتا ہے اور بیٹی کے مقابلے میں بیوی کیلئے زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن رسول اللہؐ اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کو بھی لیکر نہیں گئے پس جب نساءنا سے مراد ازواج النبیؐ نہیں ہیں تو اہل بیت کے لفظ سے متعلق ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد ازواج النبیؐ ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے آیات ہیں کہ جن میں موجود الفاظ کا لغوی معنی کچھ بنتا ہے لیکن شیعہ و اہل سنت متفق ہیں کہ یہ معنی یہاں مقصود ہی نہیں ہے جیسے سورہ نساء آیت ۲۳ میں ربائبکم التی فی حجورکم آیا ہے اب اس کا لغوی معنی کچھ بنتا ہے لیکن شیعہ و اہل سنت متفق ہیں کہ یہ معنی مراد نہیں ہے بلکہ ان بیویوں کی تمام بیٹیاں مراد ہے فقط وہ نہیں جو ابھی چھوٹی ہوں اور تمہاری پرورش میں ہوں جبکہ لغوی و عرفی معنی یہی بنتا ہے۔پس معلوم ہوا کہ جب کسی آیت کی تفسیر خود قولا یا فعلا رسول اللہؐ بتادیں اب اس میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس آیت کا لغوی و عرفی معنی یہ ہے جبکہ روایت میں یہ ہے لھذا یہ دونوں مراد ہیں یا یہ معنی عرفی ہی مراد ہے یا جمع کرتے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ رسول اللہؐ کے بیان کردہ معنی کو ہی لیں گے اس کے علاوہ جو بھی معنی بنے گا اس کے لینے کا ہمارے پاس کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قیامت تک قرآن کے ساتھ اہل بیتؑ کو رکھا ہےورنہ ہر کوئی ہر آیت سے اپنی مرضی کا معنی و مفہوم نکال کر جدا ہوجائے گا جیسا آج کر یہ دسیوں فرقے جو ہمیں نظر آرہے ہیں اس کا بھی ایک بنیادی وجہ یہی ہے۔
چوتھی دلیل کی رد
جہاں تک چوتھی دلیل یعنی روایات کی بات ہے تو اہل بیتؑ و ازواج النبی سے متعلق جو روایات کتب شیعہ و اہل سنت میں آئی ہیں ہم ان کی تین قسمیں بناتے ہیں۔پہلی قسم کی روایات وہ ہیں کہ جن میں یہ وارد ہوا ہے کہ اہل بیت فقط ازواج النبی ہیں، دوسری قسم کی روایات وہ ہیں کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیتؑ پنجتن ہیں او ر تیسری قسم کی روایات وہ ہیں کہ جن میں پنجتن کے ساتھ ازواج النبیؐ کا بھی ذکر آیا ہے۔اب کیا یہ مناسب ہےکے کہ ہم ان میں جمع کریں یا یہ مناسب ہے کہ ہم ان روایات کو قرآن مجید پر پیش کریں جو روایات قرآن مجید کے مطابق ہوں وہی لیں اور باقاعدہ سے سند و متن کے حوالے سے ان کی تحقیق کی جائے تاکہ واضح ہوجائے کہ ان میں سے کس قسم کے روایات کن سے نقل ہیں اور وہ کونسی روایات ہیں کہ جو متواتر ہیں کہ جن کو شیعہ و اہل سنت معروف و مشہور علماء نے قبول کیاہے۔جہاں تک پہلی قسم کی روایات کی بات ہے تو ان کے بارے میں تو اوپر تفصیل سے گفتگو ہوگئی ہے اور جہاں تک دوسری قسم کی روایات ہیں ان کے بارے میں بعد میں گفتگو آبھی جائے گی اور یہاں اس سے متعلق اتنا کہنا کافی ہے کہ کیونکہ یہ متواتر ہیں لھذا یہ قابل قبول ہیں ان روایات کو کسی بھی صورت میں رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور جو تیسری قسم کی روایات ہیں کہ جن میں ازواج النبیؐ کا ذکر ہے یہ ان متواتر روایات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں کہ جن میں پنجتن کا ذکر ہے اورجمع اس لیے نہیں کرسکتے کیونکہ خود ازواج النبیؐ سے نقل روایات سے ہمیں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ ازواج النبیؐ اہل بیتؑ میں سے نہیں ہیں اور نہ پھر قرآن و احادیث متواترہ میں موجود اوصاف کو ہم اہل بیتؑ سے متعلق یک جاکرپائیں گے۔جیسےحضرت ام سلمہ، حضرت عائشہ سے مروی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ازواج النبیؐ اہل بیتؑ میں نہیں ہیں اور نہ کبھی اس بات کا دعوی خود ازواج النبیؐ میں سے کسی نے کیا ہے۔
چوتھا نظریہ
اہل بیت سے متعلق چوتھا نظریہ یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد پنجتن اور قیامت تک آنے والے اولاد فاطمہ ؑو علیؑ ہیں۔
اس نظریے کے قائلین حدیث ثقلین میں موجود لفظ عترتی اور اس کے علاوہ بعض ایسی روایات کو دلیل بناتے ہیں کہ جن سے مراد علی ؑو فاطمہؑ کا فقط بلا فصل اولاد ہے نہ کہ قیامت تک آنے والی اولاد یا ان سے مراد آئمہ اہل بیتؑ ہیں جبکہ یہ لوگ اس سے قیامت تک آنے والی اولاد مراد لیتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے تفصیل سے بحث ہوچکا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ اہل بیت یا حدیث ثقلین کے بعض متون میں اگر عترتی اہل بیتی آیا ہے اس سے مراد لغوی و عرفی معنی و مفہوم نہیں ہے بلکہ قرآن و احادیث کی رو سے اس کی تخصیص ہوئی ہے کیونکہ قیامت تک سب کے سب اولاد علیؑ و فاطمہؑ معصوم نہیں ہیں۔ طول تاریخ میں اولاد علیؑ و فاطمہؑ میں سے بعض ایسے افراد بھی آئے ہیں کہ جو آئمہ اہل بیتؑ کے سراسر مخالف تھے اور بعضوں نے خود اولاد علیؑ و فاطمہؑ بلکہ بعض آئمہ اہل بیتؑ پر بھی ظلم کیا ہے۔آج کل کے دور میں وسیم رضوی جیسا بندہ بھی اولاد علی ؑو فاطمہؑ میں سے ہے کہ جو ذاتی مفادات کے تحت اصلا اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرتا ہے اگر کوئی بندہ فاطمہؑ و علی ؑکے اولاد سے ہو اور بت پرستی کرے اللہ اس کو جہنم میں نہ ڈالے جبکہ دوسرے بت پرستوں کو جہنم میں ڈال دے اور اس کو فقط نسل کی بنیاد پر جہنم میں نہ ڈالے تو یہ کہاں کا انصاف ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ علیؑ جیسے ہستی کی نسل سے کسی کا تعلق ہو اور بت پرست بن جائے اسے زیادہ سزا دی جائے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی یہودیوں عیسائیوں کے ترز تفکر سے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ وَ النَّصٰرٰی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ قُلۡ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ بِذُنُوۡبِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۫ وَ اِلَیۡہِ الۡمصیر
(اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجئے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔)
لھذا یہ وہی یہودی و عیسائی ترز تفکر سے مشابہ ترز تفکر ہے کہ جس سے آج کل بعض مسلمان متاثر ہوچکے ہیں۔سادات کا مقام و منزلت اپنی جگہ، اولاد علیؑ و فاطمہؑ ہم سے ہر حوالے سے بہتر ہیں لیکن معصوم نہیں ہیں۔
پانچواں نظریہ
پانچواں نظریہ اہل بیتؑ سے متعلق یہ ہے کہ اہل بیتؑ سے مراد فقط اور فقط رسول اللہؐ،علیؑ،فاطمہؑ، حسنؑ اور حسین ؑہیں۔
اس نظریے پر دلیل بہت ساری احادیث ہیں۔احادیث میں سے وہ احادیث کہ جو شیعہ و اہل سنت کے منابع میں تواتر کے ساتھ موجود ہیں جن میں سے بعض کو میں یہاں تبرکا پیش کرتا ہوں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ، وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: اللّٰهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ؟ قَالَ: أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ
(جب آیت کریمہ( إنما يريد اللّٰه ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ) اے اہل بیت النبوۃ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے، اور تمہاری خوب تطہیر کر دے .یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اتریں تو آپؐ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی رضی اللہ عنہ آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپا لیا، پھر فرمایا: «اللّٰهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا» ”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرما دے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے“، ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے فرمایا: ”تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے۔)
مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ: عَنْ شَدَّادٍ أَبِی عَمَّارٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی وَاثِلَۃَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَعِنْدَہُ قَوْمٌ فَذَکَرُوا عَلِیًّا، فَلَمَّا قَامُوْا قَالَ لِی: أَلَا أُخْبِرُکَ بِمَا رَأَیْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: أَتَیْتُ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا أَسْأَلُہَا عَنْ عَلِیٍّ، قَالَتْ: تَوَجَّہَ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُہُ حَتّٰی جَائَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وَمَعَہُ عَلِیٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَیْنٌ، آخِذٌ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِیَدِہِ حَتّٰی دَخَلَ، فَأَدْنٰی عَلِیًّا وَفَاطِمَۃَ فَأَجْلَسَہُمَا بَیْنَیَدَیْہِ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَیْنًا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلٰی فَخِذِہِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَیْہِمْ ثَوْبَہُ أَوْ قَالَ کِسَائً ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} وَقَالَ: (اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِی وَأَہْلُ بَیْتِی أَحَقُّ۔)
ابو عمار شداد کہتے ہیں: میں سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، ان کے ہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے، انہوں نے امام علی علیہ السلام کا ذکر چھیڑا دیا۔ (یعنی ان کے بارے میں ناگوار اور ناپسندیدہ باتیں کرنے لگے)، جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک چشم دید واقعہ بیان نہ کر دوں؟ میں نے عرض کیا: جی ضرور بیان فرمائیں۔ انہوں نے کہا: میں سیدہ فاطمہؑ کے ہاں گیا اور ان سےامام علی علیہ السلام کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے ہوئے ہیں، میں ان کی انتظار میں بیٹھ گیا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔آپ نے امام حسنؑ اورامام حسین ؑدونوں کو ایک ایک ہاتھ میں اٹھایا ہوا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر چلے آئے اور آپ نے امام علیؑ اور سیدہ فاطمہؑ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اورامام حسنؑ اور امام حسین ؑ دونوں کو اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر یا اپنا کپڑا ان سب کے اوپر ڈال دیا۔پھر یہ آیت تلاوت کی(آیت تطھیر) اور پھر فرمایا میرے اللہ یہ میرے اہل بیتؑ ہے اور یہی اس کے حقدار ہیں۔)
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے نقل ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلَيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: [إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أهل الْبَيْت وَيُطَهِّركُمْ تَطْهِيرا
(حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، صبح کے وقت نبیؑ نکلے اس وقت آپ پر کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی، اس دوران حسن بن علیؑ تشریف لائے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھ اس (چادر) میں داخل فرما لیا، پھر حسین ؑآئے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر فاطمہ ؑآئیں تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ اللہ صرف یہی چاہتا ہے، اے اہل بیت ! کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرما دے اور تمہیں مکمل طور پر پاک صاف کر دے۔)
تفسیر ابن کثیر میں بھی اس بارے میں کافی سارے روایات منقول ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
انس ابن مالک سے روایت ہے کہ:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ، أَخْبَرَنَا عَلَيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَٰهِ صَلَّى اللَٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرَ يَقُولُ: "الصَّلَاةُ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ، {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
(جب رسول اللہؐ نماز فجر سے نکلتے تو نو مہینے تک فاطمہؑ کے دوروازے پر جاتے اور کہتے آئے اہل بیت نماز،پھر اس آیت(تطھیر)کی تلاوہ فرماتے۔)
حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہے کہ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي الْمُعَدِّلِ، عَنْ عَطِيَّةَ الطُّفَاوِيّ، عَنْ أَبِيهِ؛ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ قَالَتْ بَيْنَمَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي يَوْمًا إِذْ قَالَ الْخَادِمُ: إِنَّ فَاطِمَةَ وَعَلِيًّا بِالسُّدَّةِ قَالَتْ: فَقَالَ لِي: "قُومِي فَتَنَحي عَنْ أَهْلِ بَيْتِي”. قَالَتْ: فَقُمْتُ فَتَنَحَّيْتُ فِي الْبَيْتِ قَرِيبًا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ، وَمَعَهُمَا الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَهُمَا صَبِيَّانِ صَغِيرَان
(ایک دن رسول اللہﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے کہ خادم نے علیؑ و فاطمہؑ کی دروازے پر ہونے کی خبر دے دی۔رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا کہ اٹھیں ذرا میرے اہل بیتؑ سے ہٹ جائیں۔میں اٹھی اور قریب دوسرے گھر میں گئی۔ پس اس کے بعد علیؑ،فاطمہؑ اور ان کے ساتھ حسن و حسین علیھم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ دونوں چھوٹے بچے تھے۔)
حضرت ام سلمہ سے ایک اور روایت میں منقول ہے کہ:
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب، حَدَّثَنَا فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ؛قالت أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي بَيْتِی: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} قَالَتْ: وَأَنَا جَالِسَةٌ عَلَى بَابِ الْبَيْتِ فَقُلْتُ: يَا رسول اللّٰهِ، ألستُ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ؟ فَقَالَ: إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ، أَنْتِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” قَالَتْ: وَفِي الْبَيْتِ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِيَّ، وَفَاطِمَةُ، وَالْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ
(ام سلمہ فرماتی ہے کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی اور میں کمرے کے دروازے پر بیٹھی تھی۔میں نے رسول اللہؐ سے فرمایا کہ: یا رسول اللہؐ کیا میں اہل بیتؑ میں سے نہیں ہوں؟ تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ آپ خیر پر ہیں آپ ازواج النبیؐ میں سے ہیں۔اور اس وقت کمرے میں علی،فاطمہ،حسن و حسین موجود تھے۔)
ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ:
قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُرَيج بْنُ يُونُسَ أَبُو الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ الْعَوَّامِ -يَعْنِي: ابْنَ حَوْشَب -عَنْ عمٍّ لَهُ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى عَائِشَةَ، فَسَأَلْتُهَا عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، فَقَالَتْ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: تَسْأَلُنِي عَنْ رَجُلٍ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَتُهُ وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْهِ؟ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَأَلْقَى عَلَيْهِمْ ثَوْبًا فَقَالَ: اللّٰهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا”. قَالَتْ: فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ؟ فَقَالَ: "تَنَحّي، فَإِنَّكِ عَلَى خَیر.
(راوی کہتا ہے میں نے عائشہ سے علیؑ کے بارے میں سوال کیا تو عائشہ نے جواب دیا کہ:کیاآپ ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ جو تمام لوگوں سے رسول اللہؐ کو زیادہ پسندیدہ ہےاور رسول اللہؐ کی بیٹی اسی کے پاس ہے؟ میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا کہ آپؐ نے علی،فاطمہ،حسن و حسین کو بولایا پھر ان پر کپڑا ڈالا پھر آیت تطھیر تلاوہ فرمائی۔میں رسول اللہؐ کے قریب ہوئی اور فرمایاکہ: یا رسول اللہ کیا میں بھی آپ کے اہل بیتؑ میں سے ہوں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ہٹ جاو آپ خیر پر ہیں۔)
رسول اللہﷺ سے مروی ایک اور روایت میں موجود ہے کہ:
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ زَبّان العَنزيّ، حَدَّثَنَا منْدَل، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي خَمْسَةٍ: فِيَّ، وَفِي عَلِيٍّ، وَحَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ، وَفَاطِمَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
(یہ آیت میرے،علی،فاطمہ،حسن و حسین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔)
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری روایات ہیں البتہ ہم انہیں روایات پر اکفتا کرتے ہیں۔
اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجتن اہل بیتؑ میں شامل ہیں لیکن حدیث ثقلین کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہم اہل بیتؑ سے مراد فقط یہی پانچ ہستیاں لیں تو پھر ہم یہ کیسے ثابت کریں کہ قیامت تک قرآن و اہل بیت ساتھ ساتھ ہیں کیونکہ جب رسول اللہؐ نے اپنی وفات سے پہلے کئی سارے مقامات پر یہ فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں تو جب ہم پنجتن کے مبارک زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو رسول اللہؐ کے بعد یکے بعد یگر اس دنیا سے چلے گئے اور سن 61 ھ میں امام حسینؑ بھی شھادت کے درجے پر فائز ہوگئے اب سوال یہ ہے کہ امام حسینؑ کے بعد تو قیامت تک قرآن اکیلے رہ گیا اور قرآن و اہل بیتؑ قیامت تک ساتھ نہ رہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیتؑ فقط ان پنچتن تک محدود نہیں ہے بلکہ اہل بیتؑ کی تعداد پانچ سے زیادہ ہے البتہ وہ الگ بات کہ چونکہ رسول اللہؐ کے دور میں نہیں تھے جس کی وجہ سے چادر کے نیچے بھی نہیں تھے مباہلے کے میدان میں بھی نہیں گئے اور نہ رسول اللہؐ نے اہل بیتؑ کی تعداد اسی پانچ میں محدود کی ہے کہ فقط یہی ہیں اور بس ایسا بھی نہیں ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ آج اہل بیتؑ تو نہیں ہیں لیکن اجتہاد تو ہے لھذا اہل بیتؑ کی جگہ اجتہاد نے لی ہے پس قیامت تک قرآن و اجتہاد ساتھ ہے۔یہ تاویل بھی قابل قبول نہیں ہے زمین کو آسمان سے ملانے والی بات ہے۔ساتھ یہ کہ اگر تمام مجتہدین کی اجتہاد ایک جیسی ہوتی تو پھر کسی حد تک بندہ کہہ سکتا ہے لیکن مجتہدین کی اجتہاد میں بہت اختلاف ہے ایک فقہ کے فقہاء کے نزدیک ایک چیز کا حکم وجوب کا ہوتا ہے تو دوسرے کے نزدیک حرمت کا ہوتا ہے جیسے کہ وضو میں پاؤں کے دھونے کا حکم فقہ جعفری کے نزدیک حرمت کا ہے کہ وضو میں پاؤں کا دھونا حرام ہے جبکہ مذاہب اربعہ کے ہاں وجوب ہے۔
چھٹا نظریہ
اہل بیتؑ سے متعلق چھٹا نظریہ یہ ہے کہ اہل بیتؑ سے مراد خود حضرت محمد مصطفیٰؐ،امام علیؑ،حضرت فاطمہؑ اور علیؑ وفاطمہؑ کے اولاد سے حسنینؑ سمیت گیارہ امام بھی اہل بیت ؑمیں شامل ہیں جن کو آئمہ اہل بیتؑ کہا جاتا ہے۔
یہ وہ نظریہ ہےکہ جو ہمارا مختار ہے اور یہی وہ نظریہ ہےکہ جو قرآن و احادیث میں اہل بیتؑ کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں اور جو معیار بیان ہوا ہے اسی کے عین مطابق ہے۔یہ چودہ ہستیاں عصمت و طہارت کے درجے پر بھی فائز ہیں اور یہی وہ ہستیاں ہیں کہ جن کو حدیث ثقلین میں قرآن کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔اگر ہم اس نظریےکے قائل ہوجائیں تو پہلے جتنے اعتراضات و اشکالات جو پہلے گزرے ہوئے نظریات پر ہوئے وہ یہاں وارد نہیں ہوں گے کیونکہ قرآن نےاہل بیتؑ کا جو معیار بیان کیا ہے یعنی عصمت و طہارت تو یہ ہستیاں اس معیار پر بھی پوری اترتی ہیں ساتھ شیعہ و اہل سنت ان ہستیوں کی عظمت و فضیلت کے قائل ہیں اور قیامت تک قرآن و اہل بیتؑ کا ساتھ ساتھ ہونا بھی اسی طرح ثابت ہوجاتا ہے وہ اس طرح کہ ہم شیعہ اثنا عشریہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارا بارواں امام ابھی تک زندہ ہے اور قیامت کے قریب ظہور کرے گا اور اس دنیا کو عدل سے بھر دے گا نہ کہ بعد میں پیدا ہوگا۔بلکہ امام مھدی ؑکی ولادت پر حدیث ثقلین ایک بہت ہی واضح اور ٹھوس دلیل ہے۔
ایک اور دلیل اس نظریے کی حقانیت پر وہ خود رسول اللہؐ کی امام مھدیؑ سے متعلق وہ حدیث ہے کہ جس میں رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ مھدیؑ میرے اہل بیتؑ میں سے ہوگا۔اور یہ حدیث شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں موجود ہے۔ جیسے کہ سنن ابن ماجہ کی روایت ہے:
المھدی منا اہل البیت
(مہدی ہم اہل بیت میں سے ہیں۔)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہؐ کے بعد ہر زمانے میں اہل بیتؑ میں سے ایک فرد کا ہونا ضروری ہے اور ہیں بھی اور آخری فرد اہل بیتؑ میں سے امام مھدیؑ ہیں۔اس کے علاوہ بعض اور روایات سےبھی اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ جن میں باقاعدہ واضح طور پر آیا ہے کہ اہل بیتؑ سے مراد کون ہیں اور ہر زمانے میں ان میں سے کسی ایک کا ہونا بطور حجت خدا ضروری ہے لیکن اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
اہل بیتؑ سے متعلق بعض غیر معروف نظریات
اہل بیتؑ کون ہیں اس بارے میں بعض اور بھی نظریات ہیں کہ جن میں سے بعض کا ذکر کچھ روایات میں ہیں البتہ شیعہ و اہل سنت کے معروف علماء میں سے کوئی بھی ان نظریات کو قبول نہیں کرتااور بعض نظریات ایسے ہیں کہ جن کا روایات میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے لیکن تعصب و فرقہ واریت کی وجہ سے بعض علماء ان عجیب و غریب نظریات کے قائل ہوگئے ہیں حالانکہ ان کا کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ یہ کوئی اتنی اہمیت کے حامل ہیں۔مثلا ایک نظریہ یہ ہے کہ اہل بیت تین قسم کے ہوتے ہیں ایک اہل بیت نسب، دوسرے اہل بیت سکنی اور تیسرے اہل بیت ولادت اور رسول اللہؐ کے ان تینوں قسم کے جو اہل بیت ہیں لھذا وہ اہل بیت میں شامل ہیں اور اس آیت کا مصداق ہیں۔اس نظریے کے مطابق دیکھاجائے تو ابو لہب بھی اہل ابیت رسول اللہؐ میں سے ہیں چونکہ نسب میں تو آتے ہیں مطلب کفار و مشرکین کہ جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہیں وہ بھی اس نظریے کے مطابق نعوذ باللہ اہل بیت میں شامل ہیں حالانکہ یہ نظریہ قرآن و احادیث کے بتائے ہوئے معیار کے بالکل الٹ ہے۔
ایک اور نظریے میں مسلمان رشتہ داروں کا کہا گیا ہے مطلب بنی امیہ و بنی عباس کو بھی اہل بیت میں سے شامل کیا گیا ہے مطلب ابوسفیان وغیرہ کو بھی اہل بیؑت میں شامل کیا گیا ہے حالانکہ بنی امیہ سے متعلق احادیث شیعہ و اہل سنت کتب میں موجود ہے۔آل علی، بنی امیہ اور بنی عباس کی آپس میں تاریخی اختلاف پوری دنیا کے سامنے ہے۔جبکہ اہل بیت قرآن و حدیث ثقلین کے مطابق وہ ہیں کہ جو آپس میں جدا نہیں ہیں جو ہدایت کے مینار اور قرآن کا ہم پلہ ہیں۔
ایک اور نظریہ یہ ہے کہ پوری امت اہل بیتؑ رسول اللہؐ یا آل رسول میں شامل ہے جیسے آل فرعون کہتے ہیں جبکہ اس نظریے کا بطلان بالکل واضح ہے لھذا اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں ایک بہت بڑا ذخیرہ ایسا ہے کہ جو واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ آل محمدؐ اور امت محمدؐ میں فرق ہے ایک نہیں ہیں۔
ایک اور نظریے کے مطابق سلمان فارسی کو بھی اہل بیتؑ میں شامل کیا گیا ہے۔اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلمان فارسی کے بلند مقام و منزلت کی وجہ سے رسول اللہؐ نے سلمان فارسی سے متعلق فرمایا کہ: السلمان رجل منا اہل ابیت لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت سلمان بھی اہل بیت میں شامل ہے اور قرآن و احادیث میں جو اہل بیت کا لفظ آیا ہے اس کے مفہوم میں سلمان بھی شامل ہے ایسا نہیں ہے بلکہ رسول اللہؐ نے حضرت سلمان کی مقام و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا ہے ورنہ سلمان کو بھی اپنے ساتھ چادر میں لیکر آتے یا مباہلہ کے میدان میں لیکر جاتے لیکن ایسا نہیں ہے۔جیسے ہم کبھی کسی سے متعلق کہتے ہیں کہ وہ تو میرا دل ہے یا وہ تو میرا بھائی ہے بلکہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ وہ تو ہمارے گھر کا فرد ہے اب اس سے مراد یہ نہیں کہ واقعا وہ بھائی ہی ہے نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا آپس میں رشتہ اور قربت ایسی ہوچکی ہے جیسے دو بھائیوں کے مابین ہوتی ہے۔ اور اگر فرض کریں واقع میں بھی سلمان فارسی اہل بیتؑ میں شامل ہو تو یہ ہمارے نظریے کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتا کیونکہ سلمان فارسی کے زہد و تقوی،علم و مرتبہ، عظمت و فضیلت تمام مسلمانوں کے سامنے ہے اور نہ وہ اپنی زندگی میں کبھی قرآن و اہل بیتؑ سے جدا نظر آیا ہے۔
اہل بیت سے متعلق ایک اور نظریہ یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد رسول اللہؐ کے رشتہ دار،رسول اللہ کے ازواج اور رسول اللہ کے بیٹیوں کے شوہر اور اولاد بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔ اس نظریے کا بطلان بھی پہلے کے نظریات کی طرح بالکل واضح ہے۔یہ نظریہ بھی فرقہ واریت کی بنا پر اختیار کیا گیا ہے اور بعض شخصیات کو ہر جگہ اندر کرنے کی ایک لا یعنی کوشش ہے۔
بعض روایات میں ابن عباس کا اہل بیتؑ میں سے شامل ہونے یا واثلہ کے اہل بیتؑ میں سے ہونے کا ذکر ہے جبکہ یہ بھی قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ خود ابن عباس سے جو روایت صحیح سند کے ساتھ مروی ہے اس میں پیچتن کے نام ہیں، اگر وہ بھی مراد ہوتا تو خود کہتا کہ میں بھی مراد ہوں اور واثلہ سے نقل روایت میں بعض متون میں اس کا نام نہیں ہے اور نہ وہ عصمت کے درجے پر ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اہل بیتؑ کون ہیں اس حوالے سے اور بھی نظریات ہوں کہ جو ابھی تک ہمارے علم میں نہ ہوں البتہ ہم یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بحث کا اختتام کرتے ہیں ورنہ فقط اسی پرہی اگر لکھیں تو کئی جلدی ایک کتاب بن جائے گی۔