محافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام

تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

خاندانِ رسالت کی دل آویز کہکشاں کے روشن ستارے، فخرِ مصطفیٰؐ و زہراء سلام اللہ علیہما، سیدی و مولائی امام جعفر الصادق علیہ السلام کی ذاتِ والا صفات جیسی شخصیت کے حوالے سے کچھ لکھنا محض حصولِ خیر و برکت اور عزت و شرف کے سوا اور کچھ نہیں۔ میں کہاں اور وہ فرزندِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں۔

کیا نسبت خاک را با عالم پاک

امام جعفر صادقؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہ نہایت رنج و اَلم کا ماحول تھا۔ آپؑ کی ولادتِ باسعادت کے وقت واقعۂ کربلا کو محض 22 برس گزرے تھے۔ امام زین العابدین (امام سجاد) علیہ السلام آپ کے دادا تھے، جو ہر وقت اپنے والد ماجد، شہیدِ کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدائی کے غم میں گریہ و زاری میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام محمد الباقر علیہ السلام نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی تربیت انہی نقوش پر کی، جو جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے چلے آ رہے تھے۔

آپ نے اپنے والد گرامی سے وہ تمام علوم حاصل کیے، جو نسل در نسل خاندانِ نبوت میں منتقل ہوتے رہے۔ آپؑ کے اندر خاندانِ رسالت کے تمام اوصافِ حمیدہ موجود تھے۔ آپ غربا و مساکین کی حاجت روائی میں نہایت فیاضانہ رویہ رکھتے تھے۔ مہمان نوازی میں کمال رکھتے تھے۔ عفو و درگزر اور صبر و تحمل آپ کی شخصیت کا لاینفک پہلو تھا۔ آپ کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت تھا۔ آپ نے جلیل القدر مفسرین، محدثین، فقہا، علما اور دانشور پیدا کیے۔ اسی طرح آپ نے علمِ کیمیا، ریاضی اور الجبراء کے میدانوں میں بھی بہت ہی مستند اور عظیم سائنس دان پروان چڑھائے۔ علمِ کیمیا کے عظیم موجد جابر بن حیان اور علمِ الجبراء کے بانی ابو موسیٰ الخوارزمی آپ ہی کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ محمد بن مسلم، ہشام بن سالم، ہشام بن حکم جیسے نابغۂ روزگار بھی آپ کے تلامذہ میں شامل تھے۔

فقہ میں مشہور مذاہبِ اربعہ کے بانیان بلاواسطہ یا بالواسطہ آپ ہی کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ فقہِ حنفی کے بانی سراج الأئمہ امام اعظم ابو حنیفہؒ آپ کے براہِ راست شاگرد تھے۔ امام ابو حنیفہؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا: "میں نے جعفر بن محمد جیسا عالم اور کوئی نہیں دیکھا۔” امام مالکؒ بھی امام اعظم ابو حنیفہؒ کی طرح براہِ راست حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے علمی استفادہ کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ امام مالک نے امام جعفر صادقؑ کی علمی اور اخلاقی جلالت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "میں ایک مدت تک امام جعفر صادقؑ سے علمی خوشہ چینی کرتا رہا۔” کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے سینکڑوں کی تعداد میں علمی رسائل لکھے، جنہیں جابر بن حیان نے جمع کرکے ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب کی۔

میں یہاں ضمناً ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے ابن تیمیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام جعفر صادقؑ کے کبھی شاگرد نہیں رہے۔ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔ انہوں نے امام جعفر صادقؑ کا زمانہ پایا تھا اور ان سے خوب علمی و روحانی استفادہ کیا تھا، جیسا کہ بہت سے نامور محققین نے لکھا ہے۔ ہمیں انصاف سے کام لینا چاہیے۔ کسی مسلک کی دشمنی ہمیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ ہم حقائق سے آنکھیں بند کر لیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النعمان میں بالکل درست لکھا ہے کہ "حضرت امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد سہی، لیکن امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے۔” اگر تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھا جائے تو بالکل واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام آسمانِ علم و حکمت کے ایسے آفتاب تھے کہ جن سے ہر چاند اور ستارہ ان کے دور میں ضیاء پاتا تھا۔

اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے جلیل القدر صاحبانِ فکر و دانش نے آپ سے علمی استفادہ کیا۔ امام جعفر صادقؑ سے علمی استفادہ باعثِ فخر تھا۔ اسی لیے امام اعظم ابو حنیفہؒ نے فرمایا تھا: "لَولا السَّنتان لَهَلَکَ النعمان” "اگر میری زندگی کے آخری دو سال (جو امام کی صحبت میں گزرے) نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔”

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اجداد کی طرح ہمیشہ حق و صداقت کا علم بلند رکھا۔ کسی جابر کے سامنے کبھی نہ جھکے۔ عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے آپ کو منظرِ عام سے ہٹانے کی بہت کوشش کی، مگر خاندانِ نبوت کے اس عظیم چشم و چراغ نے منصور کا اللہ کی مدد و نصرت اور اپنے نورِ ایمانی سے مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ منصور نے کئی بار امام کو شہید کرنے کی غرض سے بلایا، مگر اللہ نے ہمیشہ امام کی غیر مرئی طاقتوں سے نصرت فرمائی اور اس کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔ علامہ ابن جوزی اور دیگر جلیل القدر علما کی آرا موجود ہیں، جن میں انہوں نے امام کے مستجاب الدعوات ہونے کا ذکر کیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ کا شاندار ماضی بنو امیہ اور بنو عباس کی فتوحات کا مرہونِ منت نہیں ہے بلکہ یہ عظمت و شوکت اس علمی و فکری تحریک کی وجہ سے ہے جو خاندانِ نبوت کے عظیم فرزندان نے بپا کی تھی۔ امت پر امام جعفر صادقؑ اور آپ جیسی عظیم شخصیات کا احسان ہے، ورنہ اسلام کی نورانی تعلیمات دنیا کو یوں منور نہ کرتیں۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے جبر و استبداد پر پردہ ڈالنے والی یہی علمی اور روحانی تحریک تھی۔ اگر یہ نفوسِ قدسیہ نبوی تعلیمات کو محفوظ نہ فرماتے تو آج اسلام اپنی تعلیمات کی وجہ سے نہیں بلکہ بنو امیہ اور بنو عباس کے ظلم و ستم اور جبر و جفا کی وجہ سے مشہور ہوتا۔ مسلمانوں نے پوری دنیا کے اکثر حصے پر حکومت انہی ہستیوں کی برکت سے کی، جنہوں نے اجسام پر نہیں بلکہ قلوب پر حکومت کی۔

آخر میں اپنے قارئین کی خدمت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے چند عظیم اقوال پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

ایمان کی تکمیل کے لیے چار چیزوں کی ضرورت ہے:
(۱) اچھے اخلاق۔
(۲) نفس میں سخاوت۔
(۳) زیادہ باتونی نہ ہونا۔
(۴) اپنے اضافی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔

آپؑ نے فرمایا: جو تعوّذ (اعوذ باللّٰہ پڑھنا) پڑھے تو اس کی زبان جھوٹ، بہتان اور غیبت سے پاک ہو کر تلاوتِ قرآنِ مجید کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔

آپؑ نے فرمایا: کسی صاحبِ ایمان اور عقلمند کو دنیاوی مال و اسباب کے حصول پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کا مال کمزور پرندوں کا جال ہے اور اخروی نعمتیں شریف پرندوں کا جال ہیں۔

آپؑ نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو تخلیق فرمایا اور سب سے پہلے جنابِ رسالت مآبؐ نے اللہ کی توحید کو بیان فرمایا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button