مستحقین زکوٰۃ کی شرائط

مسئلہ (۱۹۵۷) مالک جس شخص کواپنی زکوٰۃ دیناچاہتاہوضروری ہے کہ وہ شیعہ اثناعشری ہو۔اگرانسان کسی کو شیعہ سمجھتے ہوئے زکوٰۃ دے دے اوربعدمیں پتا چلے کہ وہ شیعہ نہ تھاتوضروری ہے کہ دوبارہ زکوٰۃ دےیہاں تک کہ اگر اس نے تحقیق کیا ہو یا شرعی دلیلیں قائم ہوگئی ہوں تب بھی (احتیاط واجب کی بناء پر) یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۹۵۸)اگرکوئی شیعہ بچہ یادیوانہ فقیرہوتوانسان اس کے سرپرست کواس نیت سے زکوٰۃ دے سکتاہے کہ وہ جوکچھ دے رہاہے وہ بچے یادیوانے کی ملکیت ہوگی اور اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ خود اپنے ہاتھوں سے یا کسی امین شخص کے ذریعہ اس بچے یا دیوانے کےلئے زکوٰۃ کو خرچ کرے اور جب وہ زکوٰۃ ان کے استعمال میں آجائے تو زکوٰۃ کی نیت کرے۔
مسئلہ (۱۹۵۹)جوفقیربھیک مانگتاہو اور اس کی غربت ثابت ہوجائے تواسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے لیکن جوشخص مال زکوٰۃ گناہ کے کام پرخرچ کرتاہوضروری ہے کہ اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ شخص جسے زکوٰۃ دیناگناہ کی طرف مائل کرنے کاسبب ہواگرچہ وہ اسے گناہ کے کام میں خرچ نہ بھی کرے اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔
مسئلہ (۱۹۶۰)جوشخص شراب پیتاہویانمازنہ پڑھتاہواوراسی طرح جوشخص کھلم کھلا گناہ کبیرہ کامرتکب ہوتاہواحتیاط واجب یہ ہے کہ اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔
مسئلہ (۱۹۶۱)جوشخص مقروض ہواوراپناقرضہ ادانہ کرسکتاہواس کا قرضہ زکوٰۃ سے دیا جاسکتاہے خواہ اس شخص کے اخراجات زکوٰۃ دینے والے پرہی واجب کیوں نہ ہوں ۔
مسئلہ (۱۹۶۲)انسان ان لوگوں کے اخراجات جن کی کفالت اس پرواجب ہو( مثلاًاولاد کے اخراجات) زکوٰۃ سے ادانہیں کرسکتالیکن اگروہ خوداولاد کاخرچہ نہ دے تو دوسرے لوگ انہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور اگر جن لوگوں کا نفقہ اس پر ادا کرنا واجب ہے اور ان کے نفقہ کو ادا نہ کرپارہا ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے تو نفقہ زکوٰۃ کے ذریعہ دے سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۹۶۳)اگرانسان اپنے بیٹے کوزکوٰۃ اس لئے دے تاکہ وہ اسے اپنی بیوی اورنوکرانی پرخرچ کرے یااپنے قرضہ کو تمام شرطوں کے ساتھ ادا کرے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۶۴)باپ اپنے بیٹے کوسہم ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں سے علمی اوردینی کتابیں جن کی بیٹے کوضرورت ہوخرید کرنہیں دے سکتا۔تاکہ وہ اپنے استعمال میں لے آئے لیکن اگررفاہ عامہ کے لئے ان کتابوں کی ضرورت ہوتو(احتیاط کی بناپر)حاکم شرع سے اجازت لے لے۔
مسئلہ (۱۹۶۵)باپ فقیر بیٹے کی شادی کے لئے زکوٰۃ میں سے خرچ کرسکتاہے اوربیٹابھی باپ کے لئے ایساہی کرسکتاہے۔
مسئلہ (۱۹۶۶)کسی ایسی عورت کوزکوٰۃ نہیں دی جاسکتی جس کاشوہر اسے خرچ دیتا ہواورایسی عورت جسے اس کاشوہر خرچ نہ دیتاہو(لیکن جوحاکم جور سے رجوع کرکے) شوہر کوخرچ دینے پرمجبور کرسکتی ہواسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔
مسئلہ (۱۹۶۷)جس عورت نے متعہ کیاہواگروہ فقیرہوتواس کاشوہراوردوسرے لوگ اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں ۔ہاں اگرعقدکرنے کے موقع پرشوہر نے یہ شرط قبول کی ہو کہ اس کاخرچ دے گایاکسی اوروجہ سے اس کاخرچ دیناشوہرپرواجب ہواوروہ اس عورت کے اخراجات دیتاہوتواس عورت کوزکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔
مسئلہ (۱۹۶۸)عورت اپنے فقیرشوہرکوزکوٰۃ دے سکتی ہے خواہ شوہروہ زکوٰۃ اس عورت پرہی کیوں نہ خرچ کرے۔
مسئلہ (۱۹۶۹)سیدغیرسیدسے زکوٰۃ نہیں لے سکتالیکن اگرخمس اوردوسرے ذرائع آمدنی اس کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہوں اورغیرسیدسے زکوٰۃ لینے پرمجبور ہوتو (احتیاط واجب کی بناء) پراس سے زکوٰۃ لے سکتاہے اور اسی طرح( احتیاط واجب کی بناء پر) امکانی صورت میں ہر روز کی مقدار کے اخراجات کو ہرروز لینے پر کفایت کرے۔
مسئلہ (۱۹۷۰)جس شخص کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ سیدہے یاغیرسید،اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے لیکن اگر خود سیادت کا دعویٰ کرے اور مالک اس کو زکوٰۃ دے تو وہ بری الذمہ نہیں ہوگا۔
زکوٰۃ کی نیت
مسئلہ (۱۹۷۱)ضروری ہے کہ انسان بہ قصدقربت( یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے) زکوٰۃ دے اگر بغیر قصد قربت کے ادا کرے گا تو کافی ہے اگر چہ گنہگار ہے اوراپنی نیت میں معین کرے کہ جوکچھ دے رہاہے وہ مال کی زکوٰۃ ہے یازکوٰۃ فطرہ ہے بلکہ مثال کے طورپر اگرگیہوں اورجوکی زکوٰۃ اس پر واجب ہواوروہ کچھ رقم زکوٰۃ کی قیمت کے طورپر دیناچاہے تواس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ معین کرے کہ گیہوں کی زکوٰۃ دے رہاہے یاجوکی۔
مسئلہ (۱۹۷۲)اگرکسی شخص پرمتعددچیزوں کی زکوٰۃ واجب ہواوروہ زکوٰۃ میں کوئی چیزدے لیکن کسی بھی چیزکی ’’نیت نہ کرے‘‘ توجوچیزاس نے زکوٰۃ میں دی ہے اگراس کی جنس وہی ہوجوان چیزوں میں سے کسی ایک کی ہے تووہ اسی جنس کی زکوٰۃ شمارہوگی۔ فرض کریں کہ کسی شخص پرچالیس بھیڑوں اورپندرہ مثقال سونے کی زکوٰۃ واجب ہے، اگروہ مثلاً ایک بھیڑزکوٰۃ میں دے اوران چیزوں میں سے کہ جن پرزکوٰۃ واجب ہے کسی کی بھی ’’نیت‘‘ نہ کرے تووہ بھیڑوں کی زکوٰۃ شمارہوگی۔لیکن اگروہ چاندی کے سکے یا کرنسی نوٹ دے جوان (چیزوں ) کے ہم جنس نہیں ہے توبعض (علماء) کے بقول وہ (سکے یانوٹ) ان تمام (چیزوں ) پرحساب سے بانٹ دیئے جائیں لیکن یہ بات اشکال سے خالی نہیں ہے بلکہ احتمال یہ ہے کہ وہ ان چیزوں میں سے کسی کی بھی (زکوٰۃ) شمارنہ ہوں گی اورمالک مال کی ملکیت میں باقی رہیں گے۔
مسئلہ (۱۹۷۳)اگرکوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ (مستحق تک) پہنچانے کے لئے کسی کو وکیل بنائے تو جب وہ مال زکوٰۃ وکیل کے حوالے کرے تو ضروری ہے کہ نیت کرے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ فقیر تک زکوٰۃ پہنچنے کے وقت باقی رہے۔




