حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کی بے حرمتی

افسوس کا مقام ہے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ کی اتنی تاکید اور وصیتوں کے باوجود بھی بعض لوگوں نے اس گھر کی حرمت کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کی توہین و بے حرمتی کا ارتکاب بھی کیا اور یہ مسئلہ بہت عیاں و آشکار اور ناقابل انکار ہے۔
ہم اس سلسلے میں اہل سنت کے منابع و مصادر سے بعض نصوص نقل کرنا چاہیں گے کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ (س) کے گھر کی بے حرمتی اور بعد کے واقعات افسانہ نہیں بلکہ مسلمہ تاریخی حقائق ہیں!! اور اگرچہ خلفاء کے دور میں خاندان رسالت کے فضائل و مناقب پر شدید سختی اور پابندی تھی لیکن چونکہ ہر شے کی حقیقت و صداقت اس کی نگہبان ہے لہذا یہ تاریخی حقیقت زندہ صورت میں تاریخ و حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہو گئی ہے اور ہم منابع و مآخذ نقل کرتے ہوئے معاصر مصنفین و مؤلفین تک ، ان کی تاریخی ترتیب کو اسلام کی پہلی صدی سے مدنظر رکھیں گے:
ابن ابی شیبہ اور ان کی کتاب المصنف:
ابوبکر ابن ابی شیبہ کتاب المصنف کے مؤلف ہیں. وہ صحیح سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:
انّه حین بویع لأبی بكر بعد رسول اللّٰه (صلى اللّٰه علیه و آله) كان علی و الزبیر یدخلان على فاطمة بنت رسول اللّٰه، فیشاورونها و یرتجعون فی أمرهم۔
فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللّٰه (صلى اللّٰه علیه و آله) و اللّٰه ما أحد أحبَّ إلینا من أبیك و ما من أحد أحب إلینا بعد أبیك منك، و أیم اللّٰه ما ذاك بمانعی إن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن امرتهم أن یحرق علیهم البیت.
قال: فلما خرج عمر جاؤوها، فقالت: تعلمون انّ عمر قد جاءَنی، و قد حلف باللّٰه لئن عدتم لیحرقنّ علیكم البیت، و أیم اللّٰه لَیمضین لما حلف علیه.
ترجمہ: جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کی، علی اور زبیر حضرت سیدہ کے گھر میں مشورے کیا کرتے تھے۔ اس بات کی اطلاع عمر کو ہوئی تو وہ سیدہ کے گھر آیا اور کہا: اے دختر رسول خدا! ہمارے لیے محبوب ترین فرد آپ کے والد ہیں اور آپ کے والد کے بعد آپ ہیں لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ اگر یہ افراد آپ کے گھر میں اکٹھے ہو جائیں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے ساتھ جلا ڈالیں.
یہ کہہ کر باہر چلا گیا، جب علیؑ اور زبیر گھر لوٹ آئے تو دختر رسول (ص) نے علیؑ اور زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آیا اور قسم کھائی کہ اگر آپ لوگوں کا یہ اجتماع دہرایا گیا تو گھر کو تمہارے ساتھ نذر آتش کر دوں گا، خدا کی قسم اس نے جو قسم کھائی ہے، وہ اس پر عمل کرے گا۔
ابوبكر ابن ابى شیبہ، المصنَّف
بلاذری اور کتاب انساب الاشراف:
مشہور و معروف مؤلف اور عظیم تاریخ کے مالک احمد بن یحیی جابر بغدادی بلاذری (متوفی 270) نے یہ تاریخی واقعہ اپنی کتاب انساب الاشراف میں یوں نقل کیا ہے کہ:
انّ أبابكر أرسل إلى علىّ یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معه فتیلة! فتلقته فاطمة على الباب.
فقالت فاطمة: یابن الخطاب، أتراك محرقاً علىّ بابی؟ قال: نعم، و ذلك أقوى فیما جاء به أبوك…
ابوبکر نے علیؑ کو بیعت کے لیے بلایا تو علیؑ نے بیعت سے انکار کیا. اس کے بعد عمر فتیلہ اٹھا کر آیا اور گھر کے سامنے ہی سیدہ (س) کے روبرو ہوا. سیدہ نے فرمایا: یابن الخطاب! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم میرا گھر جلانے کے لیے آئے ہو؟! عمر نے کہا: ہاں! میرا یہ عمل اسی چیز کی مدد کے لیے ہے جس کے لیے آپ کے والد مبعوث ہوئے تھے!!!!
انساب الأشراف: ج1 ص586 مطبوعہ دار المعارف، قاہره.
ابن قتیبہ اور کتاب الامامۃ و السیاسۃ:
مشہور مورّخ عبد اللّہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری، بزرگ ادیب اور تاریخ اسلامی کے محنت کش اہل قلم ہیں. «تأویل مختلف الحدیث»، «ادب الکاتب» وغیرہ ان کی تالیفات ہیں…
وہ اپنی کتاب «الامامۃ و السیاسۃ» میں لکھتے ہیں کہ:
انّ أبابكر رضی اللّٰه عنه تفقد قوماً تخلّقوا عن بیعته عند علی كرم اللّٰه وجهه فبعث إلیهم عمر فجاء فناداهم و هم فی دار علی، فأبوا أن یخرجوا فدعا بالحطب و قال: و الّذی نفس عمر بیده لتخرجن أو لاحرقنها على من فیها، فقیل له: یا أبا حفص انّ فیها فاطمة فقال، و إن!!
ابوبکر نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جنہوں نے بیعت سے انکار کیا تھا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا. عمر، علیؑ کے گھر کے پاس آیا اور سب کو آواز دی اور کہا: سب باہر آجاؤ جبکہ انہوں نے گھر سے نکلنے سے اجتناب کیا، اس موقع پر عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں عمر کی جان ہے کہ باہر آجاؤ ورنہ میں اس گھر کو آگ لگاؤں گا. ایک آدمی نے عمر سے کہا: اے اباحفص! اس گھر میں فاطمہ ہیں؛ عمر نے کہا چاہے فاطمہ بھی ہو میں گھر کو آگ لگا دوں گا!!
الامامة و السیاسة:ص 12، مطبوعہ مكتبة تجاریة كبرى، مصر.
ابن قتیبہ نے اس داستان کو پرسوز و گداز انداز میں جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ:
ثمّ قام عمر فمشى معه جماعة حتى أتوا فاطمة فدقّوا الباب فلمّا سمعت أصواتهم نادت بأعلى صوتها یا أبتاه رسول اللّٰه ماذا لقینا بعدك من ابن الخطاب، و ابن أبی قحافة فلما سمع القوم صوتها و بكائها انصرفوا. و بقی عمر و معه قوم فأخرجوا علیاً فمضوا به إلى أبی بكر فقالوا له بایع، فقال: إن أنا لم أفعل فمه؟ فقالوا: إذاً و اللّه الّذى لا إله إلاّ هو نضرب عنقك…!
عمر ایک گروہ کے ہمراہ سیدہ (س) کے گھر پہنچا. ان لوگوں نے دستک دی جب سیدہ (س) نے دستک کی صدا سنی تو بآواز بلند فرمایا: یا رسول اللہ (ص) آپ کے بعد خطاب اور ابی قحافہ کے بیٹوں کی جانب سے ہم پر کیا مصیبتیں آ پڑیں! عمر کے ہمراہ آنے والوں نے جب سیدہ کی گریہ و بکاء کی آواز سنی تو اکثر افراد لوٹ کر چلے گئے مگر عمر چند افراد کے ہمراہ کھڑا رہا اور علیؑ کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور کہا: بیعت کرو! علیؑ نے فرمایا: اگر بیعت نہ کروں تو کیا کرو گے؟ عمر نے کہااس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں؛تمہارا سر قلم کریں گے!…
الامامة و السیاسة، ص 13.
یقینی طور پر تاریخ کا یہ حصہ شیخین سے محبت کرنے والے افراد کے لیے بہت ہی بھاری اور ناقابل یقین ہے لہذا ان میں سے کئی افراد نے مفروضوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ: گویا یہ کتاب ابن قتیبہ کی نہیں ہے جبکہ فن تاریخ کے استاد ابن ابی الحدید کو یقین ہے کہ مذکورہ کتاب ابن قتیبہ کی ہے اور ابن ابی الحدید نے اس کتاب سے متعدد بار اقتباسات لیے ہیں اور اس کے مضامین سے استناد کیا ہے. افسوس کا مقام ہے کہ یہ کتاب نئی طباعتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے اور اس کے بعض مطالب و مضامین کو حذف کیا گیا ہے جبکہ وہی مضامین ابن ابی الحدید کی کتابوں میں الامامۃ و السیاسۃ کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں اور موجود ہیں.
«زرکلی» اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ کی کاوش سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ: بعض علماء اس کتاب کو ابن قتیبہ سے نسبت دینے کے حوالے سے مختلف آراء کے قائل ہیں۔ بالفاظ دیگر زرکلی کا کہنا ہے کہ: مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ابن قتیبہ کی ہے مگر دوسرے لوگ اس سلسلے میں شک و تردد کا شکار ہیں.
معجم المطبوعات العربیة: ج1 ص212
طبری اور اس کی تاریخ:
محمّد بن جریر طبری (متوفی 310) اپنی تاریخ میں بیت وحی کی بے حرمتی کی روایت یوں بیان کرتے ہیں:
أتى عمر بن الخطاب منزل علی و فیه طلحة و الزبیر و رجال من المهاجرین، فقال و اللّه لاحرقن علیكم أو لتخرجنّ إلى البیعة، فخرج علیه الزّبیر مصلتاً بالسیف فعثر فسقط السیف من یده، فوثبوا علیه فأخذوه.
عمر بن خطاب علیؑ کے گھر پر آئے جہاں مہاجرین کا ایک گروہ موجود تھا. عمر نے ان کی طرف رخ کرکے کہا: خدا کی قسم گھر کو آگ لگادوں گا مگر یہ کہ بیعت کے لئے باہر آ جاؤ. زبیر تلوار تان کر باہر آئے مگر اچانک ان کا پاؤں پھسلا اور گر پڑے تو دوسروں نے انہیں پکڑ لیا اور تلوار ان کے ہاتھ سے چھین لی…
تاریخ طبرى: ج2 ص443، مطبوعہ بیروت.
تاریخ کے اس حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیعت اخذ کرنے کا سلسلہ دھمکی اور زبردستی پر استوار تھا اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اس طرح کی بیعت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟
ابن عبد ربہ اور عقد الفرید:
کتاب «عقد الفرید» کے مؤلف شہاب الدین احمد المعروف «ابن عبد ربہ اندلسی» متوفی (463 ھ) نے اپنی کتاب میں تاریخ سقیفہ کے سلسلے میں مفصل بحث کی ہے اور «وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا» کے عنوان کے تحت تحریر کیا ہے کہ:
فأمّا علی و العباس و الزبیر فقعدوا فی بیت فاطمة حتى بعثت إلیهم أبوبكر، عمر بن الخطاب لیخرجهم من بیت فاطمة و قال له: إن أبوا فقاتِلهم، فاقبل بقبس من نار أن یضرم علیهم الدار، فلقیته فاطمة فقال: یا ابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، أو تدخلوا فیما دخلت فیه الأُمّة!:
علیؑ، عباس اور زبیر ،فاطمہؑ کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ابوبکر نے عمر کو بھیجا اور کہا کہ انہیں وہاں سے نکال باہر کرو اور اگر باہر نہ نکلیں تو ان کے ساتھ لڑو! اسی وقت عمر آگ لے کر سیدہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا تا کہ گھر کو نذر آتش کرے، اسی وقت سیدہ (س) سامنے آئیں. دختر رسول (ص) نے فرمایا: اے فرزند خطاب کیا تم ہمارا گھر جلانے کے لیے آئے ہو ؟ کہنے لگا: ہاں! مگر یہ کہ جو کام (ابوبکر کی بیعت) امت نے کیا ہے، وہ تم بھی انجام دو۔
عقد الفرید: ج4 ص93، مطبوعہ مكتبة ہلال.
یہ گمان ہرگز پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ ان لوگوں کا مقصد صرف خوف و ہراس اور دھمکی تک محدود تھا تا کہ علی(ع) اور آپ (ع) کے معتقدین بیعت پر مجبور ہو جائیں، اور یہ کہ وہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے.
ابو عبید اور کتاب الاموال:
ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی 224) اپنی کتاب «الأموال» میں جو اسلامی فقہاء کے ہاں مورد اعتماد و وثوق ہے، سے نقل کرتے ہیں کہ:
عبد الرّحمن بن عوف کہتا ہے کہ: ابوبکر بیمار ہوا تو میں عیادت کے لیے ان کے سرہانے پہنچا. ہمارے درمیان طویل گفتگو ہوئی اور آخر میں ابوبکر نے مجھ سے کہا: اے کاش وہ تین کام جو میں نے سر انجام دئیے تھے، مجھ سے سرزد نہ ہوئے ہوتے، اور اے کاش میں تین چیزوں کے بارے میں نبی اکرم (ص) سے سوال ضرور کرتا:
وہ تین چیزیں جو میں نے سر انجام دیں اور اب آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش یہ چیزیں مجھ سے سرزد نہ ہوتیں، یہ ہیں:
«وددت انّی لم أكشف بیت فاطمة و تركته و ان اغلق على الحرب»۔
کاش میں نے فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ہوتا خواہ وہ جنگ کی نیت سے ہی بند کیا جا چکا ہوتا۔
الأموال: پاورقى 4، مطبوعہ نشر كلیات ازهریة، الأموال،ص 144، مطبوعہ بیروت،
عقد الفرید ابن عبد ربه : ج4 ص93
ابو عبید جب روایت کے اس حصے پر پہنچتے ہیں تو: لم أكشف بیت فاطمة و تركته = فاطمہ کا گھر نہ کھلواتا…کی بجائے لکھتا ہے: كذا و كذا. اور لکھتے ہیں: میں اس بات کو ذکر کرنے کا شوق ہرگز نہیں رکھتا!. اس سے بڑی علمی خیانت اور نا انصافی آپ نے کہیں دیکھی ہے، جب ہر قیمت پر طرفداری ہی کرنی ہے تو پھر عالم اور مؤرخ ہی کیوں بنے ہو ؟؟؟
لیکن اگرچہ «ابو عبید» نے تعصب یا کسی اور بنا پر حقیقت کو نقل کرنے سے گریز کیا ہے مگر کتاب الاموال پر تحقیق کرنے والے حضرات نے اس کے حاشیوں پر لکھا ہے کہ حذف شدہ جملے «میزان الاعتدال» میں اسی شکل میں بیان ہوئے ہیں جیسا کہ یہاں بیان ہوئے، اس کے علاوہ «طبرانی» اپنی کتاب «المعجم» میں، «ابن عبدربہ»، «عقد الفرید» میں اور دیگر افراد نے حذف شدہ جملے بیان کئے ہیں.
طبرانی اور معجم الکبیر:
ذہبی میزان الاعتدال میں ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: وہ معتبر شخص ہیں۔
میزان الاعتدال: ج2 ص195
طبرانی نے «المعجم الكبیر» میں ابوبکر اور اس کے خطبات اور وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ:
ابوبکر نے وفات کے وقت چند امور کی تمنا کی اور کہا: کاش میں تین کام سر انجام نہ دیتا اور تین چیزوں کے بارے میں رسول اللہ سے سوال کر لیتا۔
ابوبکر ان تین افعال کے بارے میں – جو اس نے سر انجام دیئے اور تمنا کی کہ کاش انہیں انجام نہ دیتا کہتا ہے کہ:
أمّا الثلاث اللائی وددت أنی لم أفعلهنّ، فوددت انّی لم أكن أكشف بیت فاطمة و تركته.
وہ تین چیزیں جو میری آرزو ہے کہ کاش مجھ سے سرزد نہ ہوتیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا!
معجم كبیر طبرانى: ج1 ص62، حدیث 34، تحقیق حمدی عبد المجید سلفی.
ان عبارات و تعبیرات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اپنی دھمکی کو عملی طور پر بھی انجام دیا تھا۔
ابن عبد ربہ اور عقد الفرید:
کتاب «العقد الفرید» کے مؤلف ابن عبد ربہ الاندلسی (متوفی 463 ھ) نے عبد الرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ:
ابوبکر بیمار ہوا تو میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ: اے کاش میں تین چیزوں کا ارتکاب نہ کرتا اور ان تین چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ:
وودت انّی لم أكشف بیت فاطمة عن شی و إن كانوا اغلقوه على الحرب.
کاش میں فاطمہ کے گھر کا دروازہ نہ کھلواتا، خواہ جنگ کی نوبت ہی کیون نہ آ جاتی!
عقد الفرید: ج4 ص93 مطبوعہ مكتبة الهلال.
نیز وہ عبارات بھی نقل ہونگی اور ان شخصیات کے نام بھی ذکر ہونگے جنہوں نے خلیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے.
نظام اور کتاب الوافی بالوفیات:
نظم و نثر میں حسن کلام کی بنا پر نظام کے نام سے مشہور ہونے والے ابراہیم بن سیار معتزلی نے اپنی متعدد کتابوں میں بی بی فاطمہ (س) کے گھر پر اصحاب کے حاضر ہونے کے بعد پیش آنے والے واقعے کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
انّ عمر ضرب بطن فاطمة یوم البیعة حتى ألقت المحسن من بطنھا.
عمر نے بیعت لینے کی نیت سے فاطمہ زہرا (س) کے پیٹ پر زور سے ضرب لگائی اور فاطمہ کے بطن میں جو محسن نامی بچہ تھا وہ سقط ہو گیا !!
الوافی بالوفیات: ج6 ص17، نمبر، 2444
ملل و نحل الشهرستانى: ج1 ص57، مطبوعہ دار المعرفة، بیروت.
اور نظام کے حالات زندگی کے لئے کتاب «بحوث فی الملل و النحل»: ج3 ص248-255 کی طرف رجوع کیا جائے.
نتیجہ:
یہاں ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انہی کی کتابوں سے منقولہ روشن روایات کو پڑھ اور سن کر کیا پھر بھی لکھنا چاہیں گے کہ:
« فاطمہ سلام اللہ علیہا کا افسانہ شہادت…!»؟
قرآن کریم نے ان جیسے لوگوں کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے کہ:
و لقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن و الانس لھم قلوب لا یفقھون بھا و لھم اعین لا یبصرون بھا و لھم آذان لا یسمعون بھا اولائک کالانعام بل ھم اضل اولائک ھم الغافلون
اور بتحقیق ہم نے بھر دیا جہنم کو بہت سے انسانوں اور جنوں سے انکے لیے کہ انکے دل ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اور انکی آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور انکے کان ہیں جن سے وہ نہیں سنتے، یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں یہ ہی لوگ غافل ہیں۔
سورہ اعراف آیت179
یقینا جو شخص روشن اور واضح منابع و مأخذ پر مبنی اس مختصر بحث کا مطالعہ کرے گا بخوبی جان لے گا کہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد کیا آشوب بپا ہوا تھا اور خلافت و اقتدار کے حصول کے لیے اصحاب نے کیا کیا کارنامے سر انجام دیئے اور یہ تعصب سے دور آزاد اندیش انسانوں پر اتمام حجت الہیہ ہے، کیوں کہ ہم نے یہاں اپنی جانب سے کچھ بھی (بعنوان تبصرہ و تجزیہ) نہیں لکھا اور جو بھی لکھا ہے وہ ان منابع و مآخذ سے نقل کر کے لکھا ہے کہ معتبر کتب ان کے نزدیک بھی قابل قبول ہیں!!!
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=619




