احکاماحکام معاملات

صلح کے احکام

مسئلہ (۲۱۷۰)’’صلح‘‘ سے مرادہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس بات پراتفاق کرے کہ اپنے مال سے یااپنے مال کے منافع سے کچھ مقداردوسرے کو دے دے یااپناقرض یاحق چھوڑدے تاکہ دوسرابھی اس کے عوض اپنے مال یا اپنے منافع کی کچھ مقداراسے دے دے یاقرض یاحق سے دستبردار ہو جائے۔ بلکہ اگرکوئی شخص عوض لئے بغیرکسی سے اتفاق کرے اور اپنامال یامال کے منافع کی کچھ مقدار اس کودے دے یا اپناقرض یاحق چھوڑدے تب بھی صلح صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۱۷۱)جوشخص اپنامال بطورصلح دوسرے کودے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بالغ اورعاقل ہواور صلح کاقصدرکھتاہونیزیہ کہ کسی نے اس صلح پرمجبورنہ کیاہواورضروری ہے کہ سفیہ یادیوالیہ ہونے کی بناپراسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے نہ روکاگیاہو۔

مسئلہ (۲۱۷۲)صلح کاصیغہ عربی میں پڑھناضروری نہیں بلکہ جن الفاظ سے اس بات کا اظہارہوکہ فریقین نے آپس میں صلح کی ہےتوصلح صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۱۷۳)اگرکوئی شخص اپنی بھیڑیں چرواہے کودے تاکہ وہ مثلاً ایک سال ان کی نگہداشت کرے اور ان کے دودھ سے خوداستفادہ کرے اورگھی کی کچھ مقدار مالک کودے تواگرچرواہے کی محنت اوراس گھی کے مقابلے میں وہ شخص بھیڑوں کے دودھ پر مصالحت کرلے تومعاملہ صحیح ہے بلکہ اگربھیڑیں چرواہے کوایک سال کے لئے اس شرط کے ساتھ اجارے پردے کہ وہ ان کے دودھ سے استفادہ کرے اوراس کے عوض اسے کچھ گھی دے مگریہ قیدنہ لگائے کہ بالخصوص انھی بھیڑوں کے دودھ وگھی ہوتواجارہ صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۱۷۴)اگرکوئی قرض خواہ اس قرض کے بدلے جواسے مقروض سے وصول کرناہے یااپنے حق کے بدلے اس شخص سے صلح کرناچاہے تویہ صلح اس صورت میں صحیح ہے جب دوسرااسے قبول کرلے لیکن اگرکوئی شخص اپنے قرض یاحق سے دستبردار ہونا چاہے تودوسرے کاقبول کرناضروری نہیں ۔

مسئلہ (۲۱۷۵)اگرمقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتاہوجب کہ قرض خواہ کوعلم نہ ہو اور قرض خواہ نے جو کچھ لیناہواس سے کم پرصلح کرلے مثلاً اس کو پچاس روپے لینے ہوں اوردس روپے پرصلح کرلے تو باقیماندہ رقم مقروض کے لئے حلال نہیں ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ جتنے کا مقروض ہے اس کے متعلق خودقرضہ کی مقدار کو بتائے اور اسے راضی کرلے یاصورت ایسی ہوکہ اگرقرضہ کی مقدار کوقرضے کی مقدارکاعلم ہوتاتب بھی وہ اسی مقدار (یعنی دس روپے) پرصلح کرلیتا۔

مسئلہ (۲۱۷۶)اگردوآدمیوں کے پاس کوئی مال موجودہویاایک دوسرے کے ذمہ کوئی مال باقی ہواور انہیں یہ علم ہوکہ ان دونوں اموال میں سے ایک مال دوسرے مال سے زیادہ ہے توچونکہ ان دونوں اموال کوایک دوسرے کے عوض میں فروخت کرنا سودہونے کی بناپرحرام ہے اس لئے ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح کرنابھی حرام ہے بلکہ اگران دونوں اموال میں سے ایک کے دوسرے سے زیادہ ہونے کاعلم نہ بھی ہولیکن زیادہ ہونے کااحتمال ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر)ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح نہیں کی جاسکتی۔

مسئلہ (۲۱۷۷)اگردواشخاص کوایک شخص سے یادواشخاص کودو اشخاص سے قرضہ وصول کرناہواوروہ اپنی اپنی طلب پرایک دوسرے سے صلح کرناچاہتے ہوں ۔چنانچہ اگر صلح کرناسود کاباعث نہ ہوجیساکہ سابقہ مسئلے میں کہاگیاہے توکوئی حرج نہیں ہے مثلاً اگر دونوں کودس من گیہوں وصول کرناہو(اورایک کاگیہوں اعلیٰ اوردوسرے کادرمیانی درجے کا ہو)اوردونوں کی مدت پوری ہوچکی ہوتوان دونوں کاآپس میں مصالحت کرنا صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۱۷۸)اگرایک شخص کوکسی سے اپناقرضہ کچھ مدت کے بعدواپس لیناہو اور وہ مقروض کے ساتھ مقررہ مدت سے پہلے معین مقدارسے کم پرصلح کرلے اوراس کا مقصد یہ ہوکہ اپنے قرضے کاکچھ حصہ معاف کردے اورباقیماندہ نقدلے لے تواس میں کوئی حرج نہیں اوریہ حکم اس صورت میں ہے کہ قرضہ سونے یاچاندی کی شکل میں یاکسی ایسی جنس کی شکل میں ہوجوناپ کریاتول کربیچی جاتی ہے اور اگرجنس اس قسم کی نہ ہو توقرض خواہ کے لئے جائزہے کہ اپنے قرضے کی مقروض سے یاکسی اورشخص سے کمترمقدار پرصلح کرلے یابیچ دے جیساکہ مسئلہ ( ۲۳۰۷ )میں بیان ہوگا۔

مسئلہ (۲۱۷۹)اگردو اشخاص کسی چیزپرآپس میں صلح کرلیں توایک دوسرے کی رضا مندی سے اس صلح کو توڑسکتے ہیں ۔نیزاگرسودے کے سلسلے میں دونوں کویاکسی ایک کو سودا فسخ کرنے کاحق دیاگیاہوتوجس کے پاس حق ہے،وہ صلح کوفسخ کرسکتاہے۔

مسئلہ (۲۱۸۰)جب تک خریداراوربیچنے والےایک دوسرے سے جدانہ ہوگئے ہوں وہ سودے کوفسخ کرسکتے ہیں ۔نیزاگرخریدارایک جانورخریدے تووہ تین دن تک سودافسخ کرنے کاحق رکھتاہے۔اسی طرح اگر ایک خریدارخریدی ہوئی جنس کی قیمت تین دن تک ادانہ کرے اورجنس کواپنی تحویل میں نہ لے توجیساکہ مسئلہ ( ۲۱۳۴ )میں بیان ہو چکا ہے بیچنے والاسودے کوفسخ کرسکتاہے۔لیکن جوشخص کسی مال پرصلح کرے وہ ان تینوں صورتوں میں صلح فسخ کرنے کاحق نہیں رکھتا۔لیکن اگرصلح کادوسرافریق مصالحت کامال دینے میں غیر معمولی تاخیرکرے یایہ شرط رکھی گئی ہوکہ مصالحت کامال نقددیاجائے اور دوسرافریق اس شرط پر عمل نہ کرے تواس صورت میں صلح فسخ کی جاسکتی ہے اور اسی طرح باقی صورتوں میں بھی جن کاذکر خریدوفروخت کے احکام میں آیاہے صلح فسخ کی جاسکتی ہے مگرمصالحت کے دونوں فریقوں میں سے ایک کو نقصان اور اگر صلح رفع نزاع کےلئے ہو تو صلح کوتوڑا نہیں جاسکتا ہےبلکہ اس صورت کے علاوہ بھی (احتیاط واجب کی بناء پر) نقصان اٹھانے والے کےلئے ضروری ہےکہ معاملہ فسخ نہ کرے۔

مسئلہ (۲۱۸۱)جوچیزبذریعہ صلح ملے اگروہ عیب دارہوتوصلح فسخ کی جاسکتی ہے لیکن اگرمتعلقہ شخص بے عیب اورعیب دارکے مابین قیمت کافرق لیناچاہے تواس میں اشکال ہے۔

مسئلہ (۲۱۸۲)اگرکوئی شخص اپنے مال کے ذریعے دوسرے سے صلح کرے اور اس کے ساتھ شرط لگائے اورکہے: ’’جس چیزپرمیں نے تم سے صلح کی ہے میرے مرنے کے بعد مثلاًتم اسے وقف کردوگے‘‘ اوردوسراشخص بھی اس کوقبول کرلے توضروری ہے کہ اس شرط پرعمل کرے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button