آدابخطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:205)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک16جون 2023ء بمطابق 26 ذیقعدہ1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: نصیحت
ایک انسان کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اچھی نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے جس پر عمل کرکے وہ ناصرف اپنی زندگی کو سنوار سکے بلکہ معاشرے کا ایک مفید شہری بھی بن سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید کو بھی ایک نصیحت قرار دیا ہے:
اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٰی لِلۡعٰلَمِیۡنَ ۔ (۶ انعام: ۹۰)یہ تو عالمین کے لیے فقط ایک نصیحت ہے۔
اسی طرح سورۃ الانبیاء میں فرمایا: لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ کِتٰبًا فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿٪۱۰﴾
بتحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
اس قرآن میں تمہاری عزت و شرافت ہے۔ اس کتاب نے تمہیں اقوام عالم میں سربلند کیا جب کہ اقوام عالم میں تمہارا کوئی مقام نہ تھا۔ تمہارا وجود تک محسوس نہ تھا۔ نہ تمہاری کوئی تاریخ تھی، نہ کوئی تہذیب و تمدن۔ اگر ذکر ہے تو تمہاری جاہلیت، تمہارے وحشی معاشرے، آپس کے قتل وغارت اور بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کا ہے۔ہم نے ایک کتاب تمہاری طرف نازل کی جس نے نہ صرف تمہیں تہذیب سکھائی بلکہ تم اس قابل ہوگئے کہ دنیا کو تہذیب و تمدن کا درس دے سکو۔ چنا نچہ دنیا نے تم سے تہذیب سیکھی اور انسان کو انسانی قدروں سے آگاہ کیا۔ اس قرآن میں تمہاری نصیحت ہے جس سے تم انسانی اخلاق و اقدار کے مالک بن سکتے ہو۔
وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۔۔۔ (۴۳ زخرف:۴۴)اور یہ (قرآن) آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ایک نصیحت ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو بھی اپنی قوم کے لیے ناصح یعنی واضح نصیحت کرنے والا بنا کر بھیجا گیا
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ۔۔۔۔ (۱۶ نحل : ۱۲۵)
حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے ساتھ بہتر انداز میں بحث کریں۔
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۲﴾
میں اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
نصیحت کسے کہتے ہیں؟
یہ لفظ” نصح” سے نکلا ہے جو خالص ہونے کے معنی می ہے، یعنی یہ کہ ناصح نصیحت کرتے وقت مخلص ہونا چاہئے اور ہدایت و راہنمائی اور اصلاح کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا ہو،خود لوگوں کو ان کے فائدے کی باتیں بتانا نصیحت ہے۔ چنانچہ انبیاء کی ہر بات نصیحت ہوتی تھی جس میں لوگوں کا ہی فائدہ ہوتا تھا اور اس میں انبیاء کا کوئی ذاتی مفاد شامل نہ تھا۔
اسی وجہ سے جو نصیحت سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ سابقہ کئی امتیں اسی لیے تباہ و برباد ہوگئیں کہ انہوں نے انبیاء کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا بلکہ الٹا ان کی مخالفت کی۔جیسا کہ امام علی ؑ فرماتے ہیں:
طُوبى لمَن أطاعَ ناصِحا يَهديهِ ، وتَجَنَّبَ غاوِيا يُرديهِ .(غرر الحكم : ۵۹۴۴ )
اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو نصیحت کا ہدیہ لانے والے کی باتوں کو ماننا ہے اور بردباد کرنیوالے گمراہ کن سے دور بھاگتا ہے۔
اسی طرح فرمایا:مَن خالَفَ النُّصحَ هَلَكَ . (غرر الحكم : ۷۷۴۳)جو نصیحتوں کی مخالفت کرتا ہے وہ ہلا ک ہو جاتا ہے۔
امیر المومنین کی ایک عظیم نصیحت:
اس مقام پر ہم نہج البلاغہ سے امیر المومنین امام علی ؑ علیہ السلام کی وہ عظیم نصیحت بیان کرتے ہیں جس کے بارے میں نہج البلاغہ جمع کرنے والے علامہ سید رضی فرماتے ہیں: وَ لَوْ لَمْ یَكُنْ فِیْ هٰذَا الْكِتَابِ اِلَّا هٰذَا الْكَلَامُ لَكَفٰى بِهٖ مَوْعِظَةً نَّاجِعَةً، وَ حِكْمَةًۢ بَالِغَةً، وَ بَصِیْرَةً لِّمُبْصِرٍ، وَ عِبْرَةً لِّنَاظِرٍ مُّفَكِّرٍ.
اگر اس کتاب (نہج البلاغہ) میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ اور مؤثر حکمت اور چشم بینا رکھنے والے کیلئے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کیلئے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا۔
ایک شخص نے امام علیؑ سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کریں تو امام نے فرمایا:
لَا تَكُنْ مِّمَّنْ یَّرْجُو الْاٰخِرَةَ بِغَیْرِ الْعَمَلِ، وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطُوْلِ الْاَمَلِ،
تمہیں ان لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہیے
کہ جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ میں تاخیر کرتے ہیں
یَقُوْلُ فِی الدُّنْیَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِیْنَ، وَ یَعْمَلُ فِیْهَا بِعَمَلِ الرَّاغِـبِیْنَ،
جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔
اِنْ اُعْطِیَ مِنْهَا لَمْ یَشْبَعْ، وَ اِنْ مُّنِـعَ مِنْهَا لَمْ یَقْنَعْ،
اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے
یَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَاۤ اُوْتِیَ، وَ یَبْتَغِی الزِّیَادَةَ فِیْمَا بَقِیَ.
جو انہیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں۔
یَنْهٰى وَ لَا یَنْتَهِیْ، وَ یَاْمُرُ بِمَا لَا یَاْتِیْ،
دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجانہیں لاتے۔
یُحِبُّ الصّٰلِحِیْنَ وَ لَا یَعْمَلُ عَمَلَهُمْ، وَ یُبْغِضُ الْمُذْنِبِیْنَ وَ هُوَ اَحَدُهُمْ،
نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان جیسے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں۔
یَكْرَهُ الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوْبِهٖ، وَ یُقِیْمُ عَلٰى مَا یَكْرَهُ الْمَوْتَ لَهٗ.
اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں۔
اِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِمًا، وَ اِنْ صَحَّ اَمِنَ لَاهِیًا،
اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تندرست ہوتے ہیں تو مطمئن ہو کر کھیل کود میں پڑ جاتے ہیں
یُعْجِبُ بِنَفْسِهٖۤ اِذَا عُوْفِیَ، وَ یَقْنَطُ اِذَا ابْتُلِیَ،
جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔
اِنْ اَصَابَهٗ بَلَآءٌ دَعَا مُضْطَرًّا، وَ اِنْ نَّالَهٗ رَخَآءٌ اَعْرَضَ مُغْتَرًّا،
کسی سختی میں پڑتے ہیں تو لاچار ہوکر دُعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں۔
تَغْلِبُهٗ نَفْسُهٗ عَلٰى مَا یَظُنُّ، وَ لَا یَغْلِبُهَا عَلٰى مَا یَسْتَیْقِنُ،
ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبا لیتے۔
یَخَافُ عَلٰى غَیْرِهٖ بِاَدْنٰى مِنْ ذَنْۢبِهٖ، وَ یَرْجُوْ لِنَفْسِهٖ بِاَكْثَرَ مِنْ عَمَلِهٖ،
دوسروں کیلئے ان کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لئے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں
اِنِ اسْتَغْنٰى بَطِرَ وَ فُتِنَ، وَ اِنِ افْتقَرَ قَنَطَ وَ وَهَنَ، اگر مالدار ہو جاتے ہیں تو مغرور اور فتنہ و گمراہی میں پڑ جاتے ہیں اور اگر فقیر ہو جاتے ہیں تو ناامید ہو جاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں۔
یُقَصِّرُ اِذَا عَمِلَ، وَ یُبَالِغُ اِذَا سَئَلَ.
جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں۔
اِنْ عَرَضَتْ لَهٗ شَهْوَةٌ اَسْلَفَ الْمَعْصِیَةَ وَ سَوَّفَ التَّوْبَةَ،
اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو ٹالتے رہتے ہیں۔
وَ اِنْ عَرَتْهُ مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَآئِطِ الْمِلَّةِ،
اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو ملتِ اسلامی کے خصوصی امتیازات (صبر، دعا، کوشش وغیرہ)سے الگ ہو جاتے ہیں
یَصِفُ الْعِبْرَةَ وَ لَا یَعْتَبِرُ، عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے
وَ یُبَالِغُ فِی الْمَوْعِظَةِ وَ لَا یَتَّعِظُ، اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے۔
فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ، وَ مِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ، چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔
یُنَافِسُ فِیْمَا یَفْنٰى، وَ یُسَامِحُ فِیْمَا یَبْقٰى،
فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔
یَرَى الْغُنْمَ مَغْرَمًا، وَ الْغُرْمَ مَغْنَمًا.
وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔
یَخْشَى الْمَوْتَ وَ لَا یُبَادِرُ الْفَوْتَ، موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔
یَسْتَعْظِمُ مِنْ مَّعْصِیَةِ غَیْرِهٖ مَا یَسْتَقِلُّ اَكْثَرَ مِنْهُ مِنْ نَّفْسِهٖ
دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لئے چھوٹا خیال کرتے ہیں،
، وَ یَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِهٖ مَا یَحْقِرُهٗ مِنْ طَاعَةِ غَیْرِهٖ. اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں،
فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ، وَ لِنَفْسِهٖ مُدَاهِنٌ.
لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔
اَللَّهْوُ مَعَ الْاَغْنِیَآءِ اَحَبُّ اِلَیْهِ مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَآءِ،
دولتمندوں کے ساتھ طرب و نشاط(فضولیات) میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے۔
یَحْكُمُ عَلٰى غَیْرِهٖ لِنَفْسِهٖ وَ لَا یَحْكُمُ عَلَیْهَا لِغَیْرِهٖ،
اپنے حق میں دوسرے کے خلاف حکم لگاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں۔
یُرْشِدُ غَیْرَهٗ وَ یُغْوِیْ نَفْسَهٗ، اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگاتے ہیں
فَهُوَ یُطَاعُ وَ یَعْصِیْ، وَ یَسْتَوْفِیْ وَ لَا یُوْفِیْ،
وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں، اور حق پورا پورا وصول کر لیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے۔
وَ یَخْشَى الْخَلْقَ فِیْ غَیْرِ رَبِّهٖ، وَ لَا یَخْشٰى رَبَّهٗ فِیْ خَلْقِهٖ.
وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔

مولا علیؑ کی نصیحتوں سے بھرپور اس کلام میں آخر میں نہج البلاغہ ہی سے امام علیہ السلا م کا ایک قول بیان کرتے ہیں جو نہایت قابل توجہ ہے، حکمت 297 میں فرمایا:مَاۤ اَكْثَرَ الْعِبَرَ وَ اَقَلَّ الْاِعْتِبَارَ!.نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ اس کی مختصر تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اگر زمانہ کے حوادث و انقلابات پر نظر کی جائے اور گزشتہ لوگوں کے احوال و واردات کو دیکھا اور ان کی سرگزشتوں کو سنا جائے تو ہر گوشہ سے عبرت کی ایک ایسی داستان سنی جا سکتی ہے جو روح کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنے، پند و موعظت کرنے اور عبرت و بصیرت دلانے کا پورا سرو سامان رکھتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہر چیز کا بننا اور بگڑنا اور پھولوں کا کھلنا اور مرجھانا، سبزے کا لہلہانا اور پامال ہونا اور ہر ذرہ کا تغیر و تبدل کی آماجگاہ بننا ایسا درسِ عبرت ہے جو سرابِ زندگی سے جامِ بقا کے حاصل کرنے کے توقعات ختم کر دیتا ہے۔ بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان ان عبرت افزا چیزوں سے بند نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نصیحت سننے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button