زکوٰۃ کے متفرق مسائل

مسئلہ (۱۹۷۴)انسان گیہوں اورجوکوبھوسے سے الگ کرنے کے موقع پراور کھجور اور انگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰۃ فقیرکودےدے یا اپنے مال سے علیٰحدہ کردے اورضروری ہے کہ سونے،چاندی،گائے،بھیڑ اوراونٹ کی زکوٰۃ گیارہ مہینے ختم ہونے کے بعدفقیرکودے یا اپنے مال سے علیٰحدہ کردے۔
مسئلہ (۱۹۷۵)زکوٰۃ علیٰحدہ کرنے کے بعدایک شخص کے لئے لازم نہیں کہ اسے فوراً مستحق شخص کودے دے۔اور اگر عقلی اغراض ومقاصد کی بناء پر تاخیر کردے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۷۶)جوشخص زکوٰۃ مستحق شخص کوپہنچاسکتاہواگروہ اسے زکوٰۃ نہ پہنچائے اور اس کے کوتاہی برتنے کی وجہ سے مال زکوٰۃ تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
مسئلہ (۱۹۷۷)جوشخص زکوٰۃ مستحق تک پہنچاسکتاہواگروہ اسے زکوٰۃ نہ پہنچائے اور مال زکوٰۃ حفاظت کرنے کے باوجود تلف ہوجائے توزکوٰۃ اداکرنے میں تاخیر کی کوئی صحیح وجہ نہ ہوتوضروری ہے کہ اس کاعوض دے لیکن اگرتاخیر کرنے کی کوئی صحیح وجہ تھی مثلاً ایک خاص فقیراس کی نظرمیں تھایاتھوڑاتھوڑاکرکے فقراء کودیناچاہتاتھاتو (احتیاط واجب کی بناء پر)اس کاضامن ہے۔
مسئلہ (۱۹۷۸)اگرکوئی شخص زکوٰۃ (عین اسی) مال سے اداکردے توباقیماندہ مال میں تصرف کرسکتاہے اور اگروہ زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے اداکردے تواس پورے مال میں تصرف کرسکتاہے۔
مسئلہ (۱۹۷۹)انسان نے جومال زکوٰۃ کےلئے علیٰحدہ کیاہواسے اپنے لئے اٹھاکراس کی جگہ کوئی دوسری چیزنہیں رکھ سکتا۔
مسئلہ (۱۹۸۰)اگراس مال زکوٰۃ سے جوکسی شخص نے علیٰحدہ کردیاہوکوئی منفعت حاصل ہومثلاً جوبھیڑ بطورزکوٰۃ علٰیحدہ کی ہووہ بچہ جنے تویہ زکوٰۃ کے حکم میں ہے۔
مسئلہ (۱۹۸۱)جب کوئی شخص مال زکوٰۃ علیٰحدہ کررہاہواگراس وقت کوئی مستحق موجود ہوتوبہترہے کہ زکوٰۃ اسے دے دے بجزاس صورت کے کہ کوئی ایساشخص اس کی نظر میں ہوجسے زکوٰۃ دیناکسی وجہ سے بہترہو۔
مسئلہ (۱۹۸۲)اگرکوئی شخص حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس مال سے کاروبار کرے جو اس نے زکوٰۃ کے لئے علیٰحدہ کردیاہواوراس میں خسارہ ہوجائے تواسے زکوٰۃ میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر منافع ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر) ضروری ہے اسے مستحق کو دےدے۔
مسئلہ (۱۹۸۳)اگرکوئی شخص اس سے پہلے کہ زکوٰۃ اس پرواجب ہوکوئی چیز بطور زکوٰۃ فقیرکودے دے تو وہ زکوٰۃ میں شمارنہیں ہوگی اوراگراس پرزکوٰۃ واجب ہونے کے بعد وہ چیزجواس نے فقیرکودی تھی تلف نہ ہوئی ہواورفقیرابھی تک فقیری میں مبتلا ہوتو زکوٰۃ دینے والااس چیزکو جواس نے فقیرکودی تھی زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔
مسئلہ (۱۹۸۴)اگرفقیریہ جانتے ہوئے کہ زکوٰۃ ایک شخص پرواجب نہیں ہوئی اس سے کوئی چیزبطورزکوٰۃ لے لے اور وہ چیزفقیرکی تحویل میں تلف ہوجائے توفقیر اس کا ذمہ دار ہے اورجب زکوٰۃ اس شخص پرواجب ہوجائے اورفقیراس وقت تک تنگدست ہوتو جوچیزاس شخص نے فقیرکودی تھی اس کاعوض زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔
مسئلہ (۱۹۸۵)اگرکوئی فقیریہ نہ جانتے ہوئے کہ زکوٰۃ ایک شخص پرواجب نہیں ہوئی اس سے کوئی چیزبطور زکوٰۃ لے لے اوروہ چیزفقیرکی تحویل میں تلف ہوجائے توفقیرذمے دارنہیں ہے اوردینے والاشخص اس چیزکاعوض زکوٰۃ میں شمارنہیں کرسکتا۔
مسئلہ (۱۹۸۶)مستحب ہے کہ گائے،بھیڑاوراونٹ کی زکوٰۃ آبرومندفقرا کودی جائے اورزکوٰۃ دینے میں اپنے رشتہ داروں کودوسروں پراور اہل علم کوبے علم لوگوں پراورجولوگ ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں ان کو ہاتھ پھیلانے والوں پر مقدم کریں لیکن ممکن ہے کہ کسی فقیر کو زکوٰۃ دینا کسی اور وجہ سے بہتر ہو۔
مسئلہ (۱۹۸۷)بہترہے کہ زکوٰۃ علانیہ دی جائے اورمستحب صدقہ پوشیدہ طورپر دیا جائے۔
مسئلہ (۱۹۸۸)جوشخص زکوٰۃ دیناچاہتاہواگراس کے شہرمیں کوئی مستحق نہ ہواور وہ زکوٰۃ اس کے لئے معین مدمیں بھی صرف نہ کرسکتاہوتواسے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے اور اس صورت میں اگر اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کیا ہو اور تلف ہوجائے تواس کا ضامن نہیں ہے اور حاکم شرع سے وکالت لےکر زکوٰۃ کو اس کی وکالت سے حاصل کرے اور اس کی اجازت سے دوسرے شہر منتقل کرلے اس صورت میں بھی اگر تلف ہوجائے ضامن نہیں ہے اور نقل و انتقال کی اجرت زکوٰۃ سے لے سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۹۸۹)اگرزکوٰۃ دینے والے کواپنے شہرمیں کوئی مستحق مل جائے تب بھی وہ مال زکوٰۃ دوسرے شہر لے جاسکتاہے لیکن ضروری ہے کہ اس شہرمیں لے جانے کے اخراجات خودبرداشت کرے اوراگرمال زکوٰۃ تلف ہوجائے تووہ خودذمہ دار ہے بجز اس صورت کے کہ مال زکوٰۃ دوسرے شہرمیں حاکم شرع کے حکم سے لے گیاہو۔
مسئلہ (۱۹۹۰)جوشخص گیہوں ،جو،کشمش اورکھجوربطورزکوٰۃ دے رہاہو،ان اجناس کے ناپ تول کی اجرت اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔
مسئلہ (۱۹۹۱)انسان کے لئے مکروہ ہے کہ مستحق سے درخواست کرے کہ جوزکوٰۃ اس نے اس سے لی ہے اسی کے ہاتھ فروخت کردے لیکن اگرمستحق نے جوچیزبطور زکوٰۃ لی ہے اسے بیچناچاہے توجب اس کی قیمت طے ہوجائے توجس شخص نے مستحق کوزکوٰۃ دی ہواس چیزکوخریدنے کے لئے اس کاحق دوسروں پرفائق ہے۔
مسئلہ (۱۹۹۲)اگرکسی شخص کوشک ہو جوزکوٰۃ اس پرواجب ہوئی تھی وہ اس نے دی ہے یانہیں اور جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوئی تھی وہ بھی موجودہوتوضروری ہے کہ زکوٰۃ دے خواہ اس کاشک گذشہ سالوں کی زکوٰۃ کے متعلق ہی کیوں نہ ہواوراگروہ ضائع ہوچکاہو تواگرچہ اسی سال کی زکوٰۃ کے متعلق ہی شک کیوں نہ ہواس پرزکوٰۃ نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۹۳)فقیریہ نہیں کرسکتاکہ زکوٰۃ لینے سے پہلے اس کی مقدار سے کم مقدار پر سمجھوتہ کرلے یا کسی چیزکواس کی قیمت سے زیادہ قیمت پربطورزکوٰۃ قبول کرے اور اسی طرح مالک بھی یہ نہیں کرسکتاکہ مستحق کواس شرط پرزکوٰۃ دے کہ وہ مستحق اسے واپس کر دے گالیکن اگرمستحق زکوٰۃ لینے کے بعدراضی ہوجائے اوراس زکوٰۃ کواسے واپس کر دے توکوئی حرج نہیں مثلاً کسی شخص پربہت زیادہ زکوٰۃ قرض ہواور فقیر ہوجانے کی وجہ سے وہ زکوٰۃ ادانہ کرسکتاہواوراس نے توبہ کرلی ہوتواگرفقیرراضی ہوجائے کہ اس سے زکوٰۃ لے کرپھراسے بخش دے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۹۹۴)انسان قرآن مجید، دینی کتابیں یادعاکی کتابیں سہم فی سبیل اللہ سے خریدکروقف نہیں کرسکتا۔لیکن اگررفاہ عامہ کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر)حاکم شرع سے اجازت لے لے۔
مسئلہ (۱۹۹۵)انسان مال زکوٰۃ سے جائداد خریدکراپنی اولادیاان لوگوں کووقف نہیں کرسکتاجن کاخرچ اس پرواجب ہو،تاکہ وہ اس جائداد کی منفعت اپنے مصرف میں لے آئیں ۔
مسئلہ (۱۹۹۶)حج اور زیارات وغیرہ پرجانے کے لئے انسان فی سبیل اللہ کے حصے سے زکوٰۃ لے سکتاہے اگرچہ وہ فقیرنہ ہویااپنے سال بھرکے اخراجات کے لئے زکوٰۃ لے چکاہولیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کاحج اورزیارات وغیرہ کے لئے جانالوگوں کے مفادمیں ہواور(احتیاط کی بناپر)ایسے کاموں میں زکوٰۃ خرچ کرنے کے لئے حاکم شرع سے اجازت لے لے۔
مسئلہ (۱۹۹۷)اگرایک مالک اپنے مال کی زکوٰۃ دینے کے لئے کسی فقیر کو وکیل بنائے اور فقیر کو یہ احتمال ہوکہ مالک کا ارادہ یہ تھا کہ وہ خود (یعنی فقیر) اس مال سے کچھ نہ لے تواس صورت میں وہ کوئی چیزاس میں سے اپنے لئے نہیں لے سکتااوراگرفقیر کویہ یقین ہوکہ مالک کاارادہ یہ نہیں تھاتووہ اپنے لئے بھی لے سکتاہے۔
مسئلہ (۱۹۹۸)اگرکوئی فقیر اونٹ، گائیں ، بھیڑیں ، سونااورچاندی بطورزکوٰۃ حاصل کرے اوران میں وہ سب شرائط موجودہوں جوزکوٰۃ واجب ہونے کے لئے بیان کی گئی ہیں توضروری ہے کہ فقیران پرزکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۹۹)اگردواشخاص ایک ایسے مال میں حصہ دارہوں جس کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہواوران میں سے ایک اپنے حصے کی زکوٰۃ دے دے اوربعدمیں وہ مال تقسیم کرلیں (اورجوشخص زکوٰۃ دے چکاہے) اگرچہ اسے علم ہوکہ اس کے ساتھی نے اپنے حصے کی زکوٰۃ نہیں دی اورنہ ہی بعدمیں دے گاتواس کااپنے حصے میں تصرف کرنااشکال نہیں رکھتا۔
مسئلہ (۲۰۰۰)اگرخمس اورزکوٰۃ کسی شخص کے ذمہ واجب ہواورکفارہ اورمنت وغیرہ بھی اس پرواجب ہواور وہ مقروض بھی ہواوران سب کی ادائیگی نہ کرسکتاہوتواگر وہ مال جس پرخمس یازکوٰۃ واجب ہوچکی ہو تلف نہ ہوگیاہوتوضروری ہے کہ خمس اورزکوٰۃ دے اوراگروہ مال تلف ہوگیاہوتوکفارے اورنذرسے پہلے زکوٰۃ،خمس اورقرض ادا کرے۔
مسئلہ (۲۰۰۱)جس شخص کے ذمہ خمس یازکوٰۃ ہواورحج بھی اس پرواجب ہواور وہ مقروض بھی ہواگروہ مرجائے اوراس کامال ان تمام چیزوں کے لئے کافی نہ ہواوراگروہ مال جس پرخمس اورزکوٰۃ واجب ہوچکے ہوں تلف نہ ہوگیاہوتوضروری ہے کہ خمس یازکوٰۃ اداکی جائے اوراس کا باقی ماندہ مال قرض کی ادائیگی پرخرچ کیاجائے اوراگروہ مال جس پر خمس اورزکوٰۃ واجب ہوچکی ہوتلف ہوگیاہوتوضروری ہے کہ اس کامال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیاجائے اوراس صورت میں اگرکچھ بچ جائے توحج کیاجائے اور اگرزیادہ بچا ہوتو اسے خمس اورزکوٰۃ پرتقسیم کردیاجائے۔
مسئلہ (۲۰۰۲)جو شخص علم حاصل کرنے میں مشغول ہووہ جس وقت علم حاصل نہ کرے اس وقت اپنی روزی کمانے کے لئے کام کرسکتاہے۔اگراس کاعلم حاصل کرنا واجب عینی ہوتوفقراء کے حصے سے اس کوزکوٰۃ دے سکتے ہیں اوراگراس علم کاحاصل کرنا عوامی فلاح و بہبود کے لئے ہوتوفی سبیل اللہ کے مدسے( احتیاط کی بناپر)حاکم شرع کی اجازت سے اس کوزکوٰۃ دیناجائزہے اوران دوصورتوں کے علاوہ اس کوزکوٰۃ دیناجائزنہیں ہے۔




