امربمعروف و نہی ازمنکر کے احکام

امربمعروف اور نہی ازمنکر دینی واجبات میں ایک اہم ترین واجب ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتا ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(آل عمران:۱۰۴) ۔
ضروری ہےکہ (امت اسلامی میں )تم میں سے کچھ لوگ ہوں جونیکی کی طرف دعوت دینے والے ہوں اور امربمعروف اور نہی ازمنکر انجام دیں وہی لوگ کامیاب ہیں ۔
پیغمبر اکرمؐ سے روایت منقول ہے کہ فرمایا:
’’ لا تزال امّتی بخیر ما امروا بالمعروف و نہوا عن المنکر وتعاونوا علی البر فاذا لم یفعلو ا ذلک نُزعت عنہم البرکات وسلّط بعضھم علی بعض ولم یکن لھم ناصر فی الارض ولا فی السماء ‘‘۔
میری امت اس وقت تک نیکی اور اچھائی پر رہے گی جب تک امربمعروف اور نہی ازمنکر انجام دیتی رہے اورایک دوسرے کےساتھ احسان اور نیکی کا سلوک انجام دے اوراگر ایسانہیں کرےگی تو ان سے برکت اٹھالی جائے گی اور ایک کو دوسرے پر (ظلم کی بنیاد پر) مسلط کردیا جائے گا اور زمین و آسمان میں کوئی ان کا ناصر و مددگار نہیں ہوگا۔
اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ:
’’ لاتترکوا الا امر بالمعروف والنہی عن المنکر فیولّی علیکم شرارکم ثم تدعون فلایستجاب لکم‘‘۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کروورنہ بدترین افراد تم پر حکومت کریں گے اور تمہاری دعائیں بھی مستجاب نہیں ہوں گی۔
مسئلہ (۱۸۶۷)امربمعروف و نہی عن المنکر اس صورت میں واجب ہوتا ہے کہ نیکی کاانجام دینا واجب اور برائی کا انجام دینا حرام ہو اور اس صورت میں امربمعروف ونہی عن المنکر واجب کفائی ہے اور اگر کچھ لوگ اس وظیفہ پر عمل کریں تو بقیہ لوگوں سے ساقط ہوجاتا ہے لیکن یہ سب پر لازم ہے کہ کسی حرام کام یا کسی واجب کو ترک کرتے دیکھیں تو بے توجہی نہ برتیں اور اپنی نفرت یا ناپسندیدگی کو قول و فعل کے ذریعہ ظاہر کریں ۔یہ مقدار واجب عینی ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے اس طرح واردہوا ہے: ’’امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان نلقی اھل المعاصی بوجوہ مکفہرّہ (رسول اکرمؐ نے ہم سب کو حکم دیا کہ گناہگاروں سے ناراض چہرے کے ساتھ ملاقات کریں )۔
اس صورت میں جب کہ معروف کا انجام دینا مستحب ہو(نا کہ واجب) اور منکر کا انجام دینامکروہ ہو (نا کہ حرام) تو امربمعروف اور نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر مخالفت کرنے والے کی حیثیت و شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیا جائے تاکہ اسے اذیت یااس کی توہین نہ ہو اسی طرح بہت زیادہ سخت گیری اور تندی بھی اختیار نہ کی جائے جس سے وہ دین اور مذہبی امور سے بیزار ہوجائے۔
مسئلہ (۱۸۶۸)امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا واجب ہونا درجہ ذیل شرائط کی بنیاد پر ہونا ضروری ہے :
(۱) معروف اور منکر کی پہچان اگرچہ اجمالی طورپر ہی کیوں نہ ہو، اس بناء پر جو معروف اور منکر کو نہ پہچانتا ہو اور ان دونوں کو آپس میں تشخیص بھی نہ دیتا ہو اس کے لئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے ہاں کبھی کبھی امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا انجام دینا معروف اور منکر کے سمجھنے اور پہچاننے کےلئے واجب ہوجاتا ہے۔
(۲) مخالفت کرنے والے شخص پر موثر ہونے کا امکان ہو،اس بنا پر اگر کوئی یہ جانتا ہوکہ اس کی بات سامنے والے پر اثرانداز نہیں ہوگی تو فقہاء کے درمیان یہ مشہور ہےکہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر اس پر واجب نہیں ۔ لیکن احتیاط واجب یہ ہےکہ غلط کام کرنے والے کے غلط کاموں سے اپنی ناراضگی اور ناپسندیدگی کااظہار جس طرح بھی ممکن ہو کرے اگر چہ یہ جانتا ہوکہ سامنے والے پراس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
(۳)غلط کام کرنے والے انسان کا غلط اور ناپسندیدہ کام مسلسل انجام دینے کا ارادہ ہو اس بناء پر غلط کام کرنے والا انسان اگر دوبارہ انجام دینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو لیکن دوبارہ انجام دے لے تو امربالمعروف و نہی عن المنکر واجب نہیں ہے ۔
(۴) غلطی کرنے والا شخص اپنے غلط کام انجام دینے میں مجبور نہ ہو اس نظریہ کے ساتھ جو غلط کام انجام دیا ہے حرام نہ تھا بلکہ مباح تھا یا جس نیک کام کو ترک کیا ہو وہ اس کےلئے واجب نہیں تھا۔لیکن اگر براکام ان کاموں میں سے ہو جس کے انجام دینے سے خدا اور رسولؐ ہرگز راضی نہیں ہیں ( جیسے کسی نفس محترم کا قتل کرنا)، تو اس کا روکنا واجب ہے اگرچہ انجام دینے والا معذور ہے یہاں تک کہ اگر وہ مکلف بھی نہ ہو۔
(۵)امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے شخص کےلئے (قابل توجہ مقدار میں ) جان یا مال یا عزت کا خطرہ نہ ہو اور ناقابل تحمل زحمت و مشقت نہ ہو مگر یہ کہ خدا و رسولؐ کے نزدیک معروف کام اتنا اچھا ہو اور منکر اتنا برا ہو کہ جس کی راہ میں اتنی زحمت و مشقت برداشت کیا جانا ضروری ہو۔
اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والےکےلئے کوئی نقصان نہ ہو لیکن مسلمانوں میں سے کسی دوسرے کے لئے جان یاآبرو یا مال کاقابل توجہ نقصان ہورہا ہو تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہوگا کہ اس صورت میں نقصان کی اہمیت اور اس کام کا موازنہ کیا جائے جس بناء پر بسا اوقات نقصان کی صورت میں بھی امربالمعروف ونہی المنکر ساقط نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۸۶۹)امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے کچھ مراتب و درجات ہیں :
(۱) قلبی واندرونی نفرت کا اظہار جیسے منہ پھیر لینا اور گناہگار سے بات نہ کرنا۔
(۲) زبان اور چہرہ سے وعظ و نصیحت کرنا۔
(۳) عملی اقدامات جیسے طمانچہ مارنا اورقید کرنا ۔
ضروری ہےکہ پہلے درجہ یا دوسرے درجہ سے شروع کرے اور پہلے اس درجہ کا انتخاب کرےکہ جس کی اذیت کم اور تاثیر زیادہ ہواور پھر اگر نتیجہ نہ نکلے تو بعد کے درجہ کی طرف جائے جو سخت اور مشکل ہے اور اس کے بعد والے درجہ کا انتخاب کرے۔
اگر قلبی وزبانی نفرت کا اظہار( پہلے اور دوسرے مرتبہ میں ) اثر انداز نہ ہو تب عملی اقدام کی نوبت آئے گی اور احتیاط واجب یہ ہےکہ تیسرے درجہ کے انتخاب میں ( جوعملی اقدامات کی شکل میں ہے) حاکم شرع کی اجازت لے اور لازم ہے کہ اس درجہ کا آغاز اس عمل سے کرےجس میں اذیت و تکلیف سب سےکم ہو او رپھر اگر نتیجہ نہ حاصل ہوتو زیادہ سخت اور شدید اقدام کرے لیکن ضروری ہےکہ اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ کسی عضو کے ٹوٹنے یا زخمی ہوجانے کا سبب قرار پائے۔
مسئلہ (۱۸۷۰)امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا واجب ہونا ہر شخص کے گھر والوں اور قریب رہنے والے افراد کی نسبت زیادہ شدید ہے اس بناء پر اگر گھر والوں یا قریبی افراد نے دین کے واجبات جیسے نماز، روزہ، خمس کے سلسلے میں بے توجہی و لاپروائی محسوس کی ہو اور محرمات جیسے غیبت، بہتان، کے انجام دینے میں دیدہ دلیری کا احساس کیا ہو تو ضروری ہےکہ زیادہ اہمیت کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے تینوں درجات کی رعایت کرتے ہوئے ان کو برائیوں سے روکے اور انہیں اچھے کام انجام دینے کی ترغیب دے لیکن والدین کے سلسلے میں احتیاط واجب یہ ہےکہ ملائمت اور نرمی کے ساتھ ان کی رہنمائی کرے اور کسی بھی موقع پر اس کے ساتھ تندروئی وبے رحمی اختیار نہ کرے۔




